جمرود ریلوے سٹیشن قائم شدہ 1901 سطح سمندر سے بلندی 1496 فٹ کے متروک پلیٹ فارم پر ایک سرد و گرم چشیدہ ریلوے ملازم کی میزبانی میں نوشِ جان کیے پشاوری قہوے کا ذائقہ آج بھی تالو میں تازہ ہے۔
سامنے نارتھ ویسٹرن ریلوے کےسالخوردہ بنچ پرلیویزکا اہلکار اصل میں ہمارے حفاظتی دستے کا حصہ ہے۔
وہ اوائلِ بہار کا ایک روشن دن تھا۔ ایکسل لیب کے حیات آباد کلیکشن پوائنٹ کے انسپکشن وزٹ کے بعد نہال خٹک اصرار کرکے ہمیں کارخانو مارکیٹ لے آیا۔
سمگلنگ کی اشیاء سے لبالب بھرے اس بازار میں ہمارے مطلب کا کچھ نہیں تھا۔ یہ تو وہاں پہنچ کر معلوم ہوا کہ ہماری چشمِ ناز جس درد کی گاہک تھی وہ کارخانو مارکیٹ سے تھوڑا آگے الگ باندھ کے رکھا تھا۔ نہال کی رننگ کمنٹری کے دوران سٹالوں کو ایک بیزاری کے عالم میں کھنگالتے ہماری نگاہ سامنے دعوتِ نظارہ دیتےدرۂ خیبر کے پہاڑوں میں الجھ کر رہ گئی اور دل کملا پسیج سا گیا۔ یہیں نزدیک ہی گیٹ وے ٹو خیبر کی قربت میں جمرود ریلوے سٹیشن تھا۔ ہماری صورت دیکھ کر نہال کو بھی ترس آگیا اور ہم نے گاڑی جمرود کی طرف بڑھا دی۔
بابِ خیبر کی لیویز چیک پوسٹ پر نہال اور فرنٹیئر کانسٹیبلری کے اہلکار کے درمیان جنت کی زبان میں خیرسگالی کےجذبوں کا تبادلۂ خیال ہوا۔ گفتگو کچھ طُول پکڑگئی تو ہمارے بھی کان کھڑے ہوگئے، ہاؤ کانہ کی تکرار کے مابین جو دوسرے الفاظ ہمارے پلے پڑے وہ ریٹائرڈ اور میجر تھے۔
جب ہم بابِ خیبر سےچلے تو ہماری معیت میں لیویز کی گاڑی مسلح گارڈ کے ہمراہ اردل میں تھی اور یہ نہال کی برکت تھی۔ خیبر کے درے میں ایک خٹک بھی اتنا ہی غیر محفوظ تھا جتنا ایک ریٹائرڈ میجر۔
صاحبو جمرود سے خیبر کے پہاڑوں کو ایک بے اعتنائی سے چیرتا ریلوے ٹریک طورخم کی قربت میں لنڈی کوتل کی طرف چلتا چلا جاتا ہے۔
مگر اس روشن دوپہر ہم ایک اور بھولی بسری ریلوے لائن کی تلاش میں جمرود ریلوے سٹیشن آئے تھے۔ ایک صدی قبل اکھاڑ لی گئی اس پٹڑی کے نہ تو کوئی آثارنظر آئے اور نہ ہی اسکا کچھ علم ہمارے ریلوے کے سینئیر ملازم کو تھا۔ کارخانو مارکیٹ سے شروع ہوئے جمرود ریلوے سٹیشن تک پہنچتے اس سفر کا کارن پشاور میں تہکال کے گورا قبرستان کا ایک کتبہ تھا۔
یہ تب کی بات ہے جب سپیشل سروسز گروپ کا ہمارا کپتان روح اللہ مہمند ابھی شہید نہیں ہوا تھا، اور اس کے نام پر رکھے گئے روح اللہ چوک کا نام ابھی امن چوک تھا۔
راولپنڈی سے پشاور آتے ایکسل لیب کے مینیجر آؤٹ ریچ کی گاڑی یہاں سے گرینڈ ٹرنک روڈ کو خدا حافظ کہہ دیتی کہ یہیں سے ایک راستہ مال روڈ کے کلیکشن پوائنٹ سے ہوتا ہوا سروسز کلب پشاور کو جاتا تھا۔
اگر آپ امن چوک سےچھاؤنی کی سمت نہ اتریں اورجرنیلی سڑک پر ہی رہیں جودرۂ خیبرکی راہ لیتی ہے تو وہیں چوک کے ساتھ جہاں سے تہکال پایاں کا علاقہ شروع ہوتا ہے، داہنے ہاتھ ایک چھت دار گیٹ نظر پڑتا ہے۔
سوزن ماریہ فیرنگٹن جب وہ اسی کی دہائی میں یہاں آئی تھیں انہیں ایک گورستان کا یہ نیم چھتی دروازہ کچھ کچھ ڈراؤنا لگا تھا۔ مگر وہ تو قبرستان کےاندر کی روشوں پر پام اوردوسری اقسام کےتناور درختوں کی چھاؤں کابھی ذکرکرتی ہیں۔ مس فیرنگٹن نےتو ایک عرق ریزی کےبعد اس گورستان کےکتبوں اورفوتیدگی رجسٹرکے اندراج پرمشتمل ایک کتاب بھی ترتیب دےڈالی تھی۔ 2014 کے موسم سرما کی دوپہر جب ہم یہاں آئے تھے تو دروازہ تو وہیں تھا مگر ایک آدھے پام اور کچھ خال خال درختوں کے علاوہ سارے میں ایک تیکھی دھوپ تھی اور نیچے خودرو جھاڑیوں سے اٹی زمین میں صاف چھپتے بھی نہیں سامنے آتے بھی نہیں کچھ کتبے۔
ایک نوآبادیاتی پشاور کی پوری تاریخ کہتے یہ کتبے بہت سی دلچسپ کہانیاں سناتے اور بہت سے راز افشا کرتے ہیں
ہماری آج کی کہانی سے متعلق ایک کتبہ اسی تہکال کے قبرستان کی پوشیدہ روشوں سے جھانکتے ایک قطعے میں ایڈوِن ٹامس لارج کا ہے۔ ہمارا ایڈوِن 2 اگست 1907 کو چھتیس برس کی عمر میں شاہد مینا کے علاقے میں پُورا ہوگیا جبکہ وہ لوئی شلمان ریلوے پر فرائض کی ادائیگی کے لیے مامور تھا۔
جگہ کا نام شاہد مینا ہم نے کتبے پر درج انگریزی ہجے سے حرف بہ حرف نقل کیا ہے۔ اصل میں یہ جگہ شہید میانہ ہے۔ وارسک سے مغربی سمت دریائے کابل کے جنوبی پاٹ کے ساتھ چلتے جائیں تو ملاگوری کے پہاڑ جہاں لوئی شلمان کی وادی میں اترتے ہیں وہیں دریائے کابل کے موڑ پر شہید میانہ ہے۔
ہماری یہ کہانی درۂ خیبر کو جاتی جرنیلی سڑک سے ہٹ کر شمال کی سمت دریائے کابل کی گھاٹیوں سے لوئی شلمان کی وادی میں اترتی ایک گمشدہ ریل کی پٹڑی کی کہانی ہے۔
صاحبو ہم جو ایک مدت سے تزویراتی گہرائی کا رونا روتے افغانستان کے داخلی معاملات میں دراندازی کرتے آئے ہیں، اورنائن الیون کےبعد سےدہشت گردی کےخلاف جنگ میں ایک بڑی طاقت کےفوجی حلیف رہےہیں وہ سب روس کی جانب سےکسی ممکنہ حملےکی پیش بندی ہے۔
صحیح غلط کی بحث سےقطع نظرروس کی بابت ہمارایہ اندیشہ کافی پراناہے۔ ایک محکوم برٹش انڈیامیں ہمارےانگریز آقاکہ جسکی نوآبادیاتی شہنشاہت میں سورج کبھی غروب نہیں ہوتاتھا اسےبھی ایک غیرمنقسم ہندوستان کی شمال مغربی سرحدپر یہی اندیشہ کھائےجاتاتھاکہ کہیں روس افغانستان کےپہاڑوں سےنکلتےدروں کی راہ پکڑتاتاریخی حملہ آوروں کی پیروی کرتابرطانوی کالونی پرحملہ آورنہ ہوجائے۔
شمال میں کابل اورجنوب میں قندھارکسی ممکنہ روسی حملےکے متوقع اہداف تھے۔
اول الذکرکی بات کچھ دیرمیں کرتےہیں، جنوب میں قندھارہی کی برکت تھی کہ ہمنام قندھارریلوےکی داغ بیل ڈالی گئی۔ روہڑی سے کھنچی، بولان کےدرےکوکئی سرنگوں سےکاٹتی کوئٹہ پہنچتی اس تین سو بیس کلومیٹرلمبی ریلوےلائن کاسروےکرنےوالوں میں تھامسن کالج آف انجینیئرنگ رورکی کےگریجوایٹ مرزاہادی رسوابھی تھے۔
اب یہاں ہمارے دوست محمد حسن معراج کہیں گےجی ہاں وہی امراؤ جانِ ادا والے مرزا رسوا، جن کےبارےمیں لوگ کہتے ہیں کہ اگر مرزا صاحب نہ ہوتے تو نہ شریفوں کی لڑکی کوٹھےپہنچتی اورنہ چمن کاپھل پنجاب۔ بات کہیں اور ہی نکلی جاتی ہے، ہم قندھار ریلوے کا ذکر کررہے تھے، جسے بعد ازاں سند پشین سٹیٹ ریلوے کا نام دیا گیا اور ریلوے لائن کوئٹہ سے آگے چمن کی سرحدی منڈی تک لائی گئی۔ یہاں سے قندھار ایک سو آٹھ کلومیٹر دور تھا۔ چمن میں ہی ریلوے کا ڈپو کھڑا کیاگیا جس میں ریل کی پٹڑی، سلیپر اور ریلوے پل بمعہ حصے و پرزے رکھے گئے تاکہ بوقت حملہ و ضرورت فوجی ٹرین کو قندھار تک کھینچنے کا حیلہ کیا جاسکے۔ صاحبو چمن کا پھل روہڑی ضرور پہنچا، آج بھی پہنچتاہےمگر یہ ریلوے لائن سرحد پار قندھار کے اناروں تک نہ پہنچ پائی۔
قندھارسے ہم واپس گوروں کے دور کے شمال مغربی سرحدی صوبے کو پلٹتے ہیں۔
کابل پرممکنہ روسی چڑھائی سے نبرد آزما ہونے کےلیے لارڈ کچنر کو جو بنیادی منصوبہ پیش کیا گیا اس میں ریلوے کی دوپٹڑیاں شامل تھیں۔ ان میں سے ایک تو اورکزئی اور کرم ایجنسیوں کے سنگم پر واقع ٹل چھاؤنی کے ریلوےسٹیشن سے دریائے کرم کی وادی میں پاڑاچنار اور آگے افغان سرحد پر پیواڑ کوتل کے درےتک جانی تھی۔ یہاں سےکابل نوےپچانوےمیل کی دوری پرتھا۔ یادش بخیرسن دوہزارکےستمبرمیں جب فوج نےہمیں اگوکی سےاُٹھا کرٹل پھینکاتو ون سیون فورکےنوآموز 2IC میجر(بعدازاں لیفٹیننٹ کرنل ریٹائرڈ) ارشدبھٹی نے ہمارے نام چودہ عباسیہ میں ایک نیم سرکاری خوش آمدیدی چٹھی (demi official letter) بھیجی تھی۔ اس میں کوہاٹ سے ٹل تک کے ذرائع آمدورفت میں ہر تین گھنٹے بعد یا جب سواریاں پوری ہوجائیں چلنے والی ویگنوں کے ساتھ ساتھ کرنل بھٹی نے نیرو گیج (دوفٹ چھ انچ عرض کی) ریلوے لائن کا ذکر بھی کیا مگر ساتھ ہی ساتھ برسبیلِ تذکرہ یہ بھی بتا دیا کہ ریلوے سروس تو عرصہ ہوابند ہوئی اب بس بل کھاتی سڑک کے سنگ چلتی زنگ آلود ریلوے کی پٹڑی بچی ہےجسےقبائلی ابھی تک تو اکھاڑ کے ساتھ لےجانہیں پائے۔ صاحبو ٹل میں تین برس کے قیام کے دوران جب جب کوہاٹ سے چلی ویگن ہنگو پھاٹک کے پار امرودوں کے لہلہاتے باغوں سے گزرتی ابھی بمشکل استرزئی پایان اور استرزئی بالا ہر دو کے بیچ پہنچتی تو کوہاٹی سفر کے پہلے بھبھکے آنے شروع ہوتے۔ ہمسفر خوانین کی نچلے ہونٹ یا پھر رخسار کی دراڑ میں احتیاط سے پھنسائی فرنٹیئر مارکہ نسوار کی گولیاں اور ان کی مستورات کی ایک تواتر کے ساتھ کھڑکی سے منہ باہر نکال کر ہاتھ میں پکڑے شاپر میں اخراجی کارروائی۔
صاحبو کوہاٹ سے ٹل کے ہر سفر میں استرزئی پایان و بالا ہردو کے بیچ اس ہلکان دل نے پاس سے گزرتے ٹل کو جاتے نیرو گیج ریلوے ٹریک کو ہمیشہ حسرت کی نظر سے دیکھا۔
اب یہاں گزرے دنوں کے ریلوے رومان میں گرفتار ہمارے گرو سمان رشید (@odysseuslahori) بتاتے ہیں کہ کوہاٹ سے ٹل کی آخری ٹرین لگ بھگ جون 1991 کو چلی تھی۔
ایسا انہیں کوہاٹ ریلوے سٹیشن کے سیٹشن ماسٹر نے بتایاتھا۔ اپنے بلاگ میں سلمان 1987 میں کوہاٹ کے سٹیشن ماسٹر سے ہوئے ایک مچیٹے کا ذکر کرتے ہیں جب وہ ہفتے میں ایک دن چلتی کوہاٹ سے ٹل جاتی ٹرین کی سواری کی نیت سے آئے تھے۔
وہ منگل کا دن تھا مگر سٹیشن ماسٹر یہ ماننے پر راضی نہیں تھا کہ آج منگل ہے۔ بہرکیف سلمان کی ٹل کی ٹرین کی سواری کی خواہش عملی جامہ نہ پہن سکی۔ ٹل میں اپنی پوسٹنگ کے دوران ہم نے بھی ایک زنگ آلود پانی کی ٹنکی اور شکستہ فصیلوں والا ریلوے سٹیشن ہی دیکھا۔
کوہاٹ سے ٹل کو جاتی اس ’کھلونا ٹرین‘ کا احوال جبکہ وہ چلتی تھی کچھ کچھ اکیس پنجاب کے میجرکولن مٹکاف اینریکے نے اپنی کتاب پٹھان بارڈرلینڈ کے سمانہ پر باندھے باب میں کیاہے۔ ’کوہاٹ سے ایک کھلونا ٹرین میرانزئی وادی میں رینگتی آتی ہے۔ یہ وقت کی کچھ زیادہ پابند نہیں ہے۔
گھنٹے کی تاخیرتو معمول کی بات ہے، کہ کبھی تو اس کا انجن کھوجاتا ہے اور اگر انجن وقت سے چل پڑے تو گارڈ کی آنکھ نہیں کُھلتی۔ سواریاں اس تیزرفتارٹرین کے چلتے چڑھتی اترتی ہیں اور جب بھاپ کا انجن خشک ہوجائے تو یارلوگ ساتھ بہتی ندی سے بالٹیاں بھر انجن میں انڈیل دیتے ہیں۔
کچھ سالوں پہلے ہمارے دوست ڈاکٹر عمر مختار (@OMK1973) ٹل کا چکر لگا کرآئےتو ایک نظر ٹل کے ریلوے سٹیشن پر بھی ڈال آئے۔ تخمیر وہیں کھڑا ہے، ڈاکٹر صاحب کو ساتھ ہی متروک ریلوے ٹریک پر اس سے بھی مخدوش رولنگ سٹاک نظر پڑا۔ ٹل سفاری کا نام ماتھے پر سجائے خدا معلوم یہ ڈبے کتنے پرانے ہیں۔
پچھلی صدی کے آغاز میں جب لارڈ کچنر نے ریلوےلائن کو ٹل سے آگے چلانے کا عندیہ دیاتھا تو اس کا نام ٹل سفاری رکھا تھا یا نہیں، یہ ہم نہیں جانتے، یہ مگر ضرور جانتے ہیں کہ کرم ریلوے پر کام ریلوے کی زبان میں ’رائٹ آف وے‘ کے حصول سے آگے نہیں بڑھ پایا۔ پٹڑی تو نہ بچھی مگر پاراچنار میں
ایک سٹیشن بنگلہ ضرور تعمیر ہوا جو کہ ٹل سے آگے ریلوے کی واحد یادگار ہے۔
شمال میں ہی دوسری ریلوے لائن نے درہ خیبر کے راستے جلال آباد کی وادی کے مشرق میں لوئی ڈکا تک جانا تھا جہاں چمن کی طرز پر ایک ریلوے ڈپو بنانے کی تجویز تھی۔ پشاور سے لوئی ڈکا جانے کے دو راستے تھے، ایک تو شمال میں ملاگوری کے پہاڑوں کی قربت میں وارسک سے دریائے کابل کے لہرئیے سانپ کے ساتھ ساتھ تنگ گھاٹی میں چلتا تھا دوسرا وارسک سے تھوڑا آگے جاکر شہید میانہ کے پاس دریائے کابل کو چھوڑ کر لوئی شلمان کی وادی میں اتر کر شلمان گھکی درے سے گزرتا لوئی ڈکا کو جاتا تھا۔
صاحبو یہ وہی شہید میانہ ہے جہاں تہکال کے گورا قبرستان میں دفن ہمارا ایڈوِن ٹامس لوئی شلمان ریلوے کے سرویئر کی حیثیت سے تعینات تھا اور ہم جس بھولی بسری پٹڑی کو کھوجتے جمرود آئے تھے۔
کسی آس کے گمان میں درۂ خیبر کی بلندیوں پر نظر جمائے جمرود کے پلیٹ فارم پر قہوہ پیتے شمال کی سمت نکلنے والی ایک متروک ریلوے لائن کا کھُرا ڈھونڈنے میں ایک قباحت تھی، ہم غلط جگہ پر تھے۔ ملاگوری کے پہاڑوں کے پار لوئی شلمان کی وادی میں اترتی یہ ریلوے لائن پشاور سے تھوڑا آگے اور جمرود سے کافی پہلے ریگی للمہ جنکشن سے وارسک کی سمت الگ ہوجاتی تھی۔
آج کےحیات آبادکی قربت میں گئےوقتوں کےریگی للمہ میں ریلوے سٹیشن کا تو کوئی نشان نہیں بچامگراس جگہ نےافغان مہاجرین کےپناہ گزین کیمپ کےحوالے سےکافی شہرت پائی۔
لوئی شلمان ریلوےکی ہماری پٹڑی حیات آبادکی قربت میں جمرود کی لائن سےالگ ہوجاتی تھی اوروارسک کارُخ کرتی تھی۔
ہمیں اس ریلوے لائن کی سمتی درستگی کا تو علم نہیں مگر آرنلڈ کیپیل جہاں اپنی کتاب
Gun-running and the Indian North-west Frontier
میں لنڈی کوتل جانےکی نیت سےٹم ٹم پرسوارپشاورچھاؤنی سےرائل منسٹرفوزیلیئرز اوراکیاون سکھ کی لائنوں سےگزرتاجمرودمیں پرانے سکھ قلعےکوجاتی شاہراہ پرنکلتا ہے توپشاور۔جمرودٹریک پرروزچنگھاڑتی فلائنگ آفریدی ریلوےسروس کاذکر کرتاہے وہیں ہمیں یہ بھی بتاتاہےکہ پشاورکےبعد اورجمرودسے پہلےکچا گڑھی کےقلعہ نما ریلوےسٹیشن کی فصیلوں سےکابل ریور ریلوے(Kabul River Railway)کی پٹڑی الگ ہوکرشمال کی سمت ملاگوری کےپہاڑوں میں کسی ان دیکھےٹرمنس کارُخ کرتی۔
لال باہا نے 1968 میں جب بیسویں صدی کے آغاز میں سرکارِ انگلشیہ کے شمال مغربی سرحدی صوبے کے انتظام و انصرام پر لگ بھگ پانچ سو صفحوں پر مشتمل اپنا تھیسس لکھا تو اس میں ایک باب اس وقت کی سڑکوں اور ریلوے ٹریکس کے نام بھی کیا۔ اس تھیسیس سے لوئی شلمان ریلوے پرجو کام کی چیز ہمیں ملتی ہے وہ ایک نقشہ ہے جو اس سروے کا حصہ ہے جو ایچ ایس ہیرنگٹن نے لوئی شلمان ۔ ڈکا ریلوے لائن پر انیس سو سات میں مکمل کیا تھا۔
جنوب میں آفریدی اور شمال میں مہمند قبائل کے علاقوں کی حد بندی کرتا یہ نقشہ ریلوے لائن کے دونوں مجوزہ راستوں کی مارکنگ کرتا ہے۔ ملاگوری کےپہاڑوں سےآگےدریائےکابل کےساتھ ساتھ چلتی ریلوےلائن جوشنپوخ سےآگےآج کی سلالہ چیک پوسٹ سےہوتی ایک لمباچکرکاٹ کرکام ڈکاتک آنی تھی۔ دوسرا راستہ وارسک سےکچھ آگےشہیدمیانہ سےبائیں سمت لوئی شلمان کی وادی میں اترتاہےجہاں نقشہ ایک سرنگ دکھاتاکچھ چکردارلہریوں کےبعدشلمان گھکی پاس سےہوتاکام ڈکاکےنشیب میں اترجاتاہے۔
ویڈیو لنک
کیپل کی کتاب اور لال باہا کے تھیسس کے علاوہ ایک اور دستاویز ہے جوگئے دنوں کے بے جان لوئی شلمان ریلوے میں روح پھونکتی ہے۔ نیشنل آرکائیوز آف انڈیا کا ڈیجیٹائز کیاہوا سرکارِ انگلشیہ کے فارن آفس کا اکتوبر 1907 کا ڈوزیئر جو لوئی شلمان ریلوے ٹریک پر ہونے والی سرگرمیوں کی خبرلاتا ہے۔
وارسک سے آگے جہاں ریلوے کی پٹڑی نے دریاے کابل کے موڑ پر لوئی شلمان کی وادی میں اترنا تھا شہید میانہ کے مقام پر ایک بڑا کیمپ لگایا گیا تھا، جہاں ایک وقت میں چار سے پانچ ہزار لوگ کام کررہے تھے۔ سرنگ پر کام جاری تھا اور شہید میانہ نالے پر پُل بنانے کا ٹھیکہ ایک حکم چندکو دیاگیاتھا۔
شہید میانہ کے کیمپ میں ہی ایک اور ٹھیکے دار شہزادہ خان کے ٹینٹ پر قبائلیوں کے بلوے کا ذکر ہے جو بارہ سو روپے کی مالیت کی نقدی اور سامان لوٹ کر لے گئے تھے۔
ایک اور تراشہ ہمیں یہ خبر بھی دیتا ہے کہ شہید میانہ کے کیمپ میں ہی مکران سے آئے ایک سو مزدور کام پر مامور تھے۔
انہیں بلوچستان کا ایک سندھی ٹھیکیدار ہرسا نند لے کر آیا تھا۔ اس وقت میں ایک مزدورکی یومیہ اجرت آٹھ سےبارہ آنےتھی۔
اس ڈوزیئر میں ایک اور تراشہ خوئے زئی اور بازئی مہمند قبائل کی طرف سےمثبت ردعمل کےبارےمیں ہےجودریائےکابل کےراستے سمٹزئی اور اس سےآگے بچھائی جانےوالی ریل کی پٹڑی کو گوروں کےزیرِ فرمان آنےاورالاؤنسزکےملنےکاباعث سمجھتےہیں۔
ساتھ ہی ساتھ لوئی شلمان ریلوےپرپیش آنےوالی مشکلات کاذکر بھی ملتا ہےکہ بازئی مہمندوں میں مُلا صاحبِ حق اپنےقبیلےکےلوگوں کو ریلوےپارٹیوں پرحملے پراُکسا رہاہے۔ شنپوخ کےعلاقے میں اگر کام شروع ہوا تو مزدور ان کی پہنچ میں ہوں گے۔
پھر کچھ یوں ہوا کہ ریلوے کی تاریخ کےاس مہنگے ترین منصوبے پر اسوقت کام روک دیا گیا جبکہ لگ بھگ تئیس میل کی پٹڑی بچھائی جا چکی تھی۔ سرکارِ انگلشیہ کو روسی جارحیت سے خطرہ نہیں رہا تھا اور اس مہنگی ریلوے لائن پر حکومت کا مزید خرچ کرنے کا کوئی ارادہ نہیں تھا۔
ریلوے کی بچھائی گئی پٹڑی، سلیپر اور تعمیر شدہ پلوں اور پلیوں کے حصے کچھ اس صفائی سے اکھاڑلیے گئے کہ آج اس متروک ریلوے لائن کا نام ونشان تک نہیں ملتا۔
1919 میں تیسری افغان جنگ نے اس گڑے مردے میں پھر سے روح پھونک دی تھی۔ ایسے میں جب کرنل گورڈن ہرن نے ریلوے لائن کا سروے کیا تو انگریزی محاورے کے مطابق ایک بند بکسے سے باہر سوچنے کے تمام کوائف پورے تھے۔ کرنل گورڈن نے شمال میں دریائے کابل کی گھاٹیوں کو یکسر نظر انداز کرتے ہوئے جمرود سے طورخم کو جاتی سڑک کی ہمراہی میں جو سروے کیا وہ ریلوے کی تاریخ کے شاندار کارناموں میں سے ایک ہے۔
جمرود (سطحِ سمندر سے بلندی 1496 فٹ) سے لنڈی کوتل (3494 فٹ) کے درمیان اکیس میل کی مسافت میں لگ بھگ دوہزار فٹ کی چڑھائی چڑھتی ریل جبکہ وہ چلا کرتی تھی تو یہ ہرگام تین فیصد کی ڈھلان چڑھتی۔ اب یہاں لفظ ڈھلان کے استعمال پر یوسفیؔ صاحب ہمارے لتے لینے کو تیار ہونگے ہونا بھی چاہیے۔
مرشدی ہی نے بتایا تھا کہ لفظ سلوپ (slope) یا ریمپ (ramp) کا لغوی ترجمہ مقتدرہ والوں نے ڈھلان کیا ہے۔ ’لغت نویس نے اوپری منزل پر بیٹھ کر یہ معنی لکھے ہیں۔ صاحبو جس شہر کا ڈھلان ایسا ہوتا ہے وہاں کی چڑھائی کا اللہ اللہ کیا عالم ہوگا۔‘
تو صاحبو اس قدر تیکھی ڈھلان ہمارا مطلب ہے چڑھائی جمرود ۔ لنڈی کوتل ۔ لنڈی خانہ ریلوے کو باقی راستوں سے ممتاز کرتی تھی۔ جمرود سے لنڈی خانہ تک کے اس سفر میں چار ریورسنگ سٹیشنوں کو ملا کر (جہاں ریل گاڑی کو آگے سفر جاری کرنے کے لیے سمت الٹ کرنی پڑتی تھی) کُل دس کراسنگ سٹیشن تھے۔
اس راستے پر کُل چونتیس سرنگیں تھیں جنکی ملا کر کُل لمبائی تین میل تھی۔ خیبر ریلوے کو بچھانے کی کُل لاگت اسوقت کے سات سے آٹھ لاکھ روپے فی میل تھی۔ عزیز قارئین، ہم ماضی کے صیغے میں کچھ اس لیے بات کررہے ہیں کہ عرصہ ہوا یہاں ریل کی آمدورفت بند ہے اور ریل کی پٹڑیاں اور پُل (ایک زمانے میں پُل اور پُلیاں کُل ملا کر بانوے کا میزان تھا) شکستہ اور برباد حالت میں ہیں۔
اگر آپ آج کی تاریخ میں طورخم کے مسافر ہیں تو بارڈر سے کچھ پہلے روڈ سے تھوڑا ہٹ کر ایک ریلوے سٹیشن کے شکستہ آثار میں لنڈی خانہ ریلوے سٹیشن کا بورڈ آج بھی کھڑا ہے۔
انگریزی اور اردو کے ساتھ گرُمکھی کے شبد گواہی دیتے ہیں کہ ایک زمانے میں کہ خالصہ فوج کے جرنیل ہری سنگھ نلوا کے زورِ بازو پر شیرِ پنجاب رنجیت سنگھ کی سلطنت کی مغربی سرحد جمرود کے قلعے تک آپہنچی تھی۔
صٓاحبو خیبر ریلوے کا ہمارا یہ سفر پشاور کے تہکال پایاں کے گورا قبرستان کے ایک کتبے سے شروع ہوا تھا۔ ایڈون ٹامس لارج جو لوئی شلمان ریلوے پر کام کے دوران شہید میانہ میں جان کی بازی ہار گیا تھا۔ اب کتبہ تو ہمیں مزید تفصیل نہیں بتاتا مگر آپ قبرستان کا تدفینی رجسٹر نکالیں جیسا کہ سوزن ماریہ فیرنگٹن نے نکالا تھا تو ایڈوِن ٹامس کا اندراج ہمیں بتاتا ہے کہ مسٹر لارج ریلوے اوورسیئر تھےجنکا انتقال ہیٹ سٹروک کی وجہ سے ہوا اور اسوقت انکی عمر تینتیس برس تھی (کتبے پر عمر چھتیس برس درج ہے)۔
لوئی شلمان ریلوے پر جاری کام کی رفتار کی خبر دیتے 1906 کے فارن آفس ڈوزیئرر کے صفحے ہمیں کچھ اور حادثاتی اموات کا بتاتےہیں۔ ٹریک بلاسٹنگ سے زخمی ہوا ایک قلی بعد ازاں اسپتال میں چل بسا جبکہ تین قلی ڈوب کر جاں بحق ہوئے۔ گوکہ پولیس کی طرف سے ندی نالوں میں نہانے کی مناہی ہے مگر گرم موسم کی حدت میں ان مزدوروں کو نہانے سے باز رکھنا مشکل ہے۔
صاحبو دُکھ کی بات یہ ہے کہ ہیٹ سٹروک سے وفات پائے ایڈوِن ٹامس کے کتبے کی تو ہمیں خبر ملتی ہے مگر اسی ریلوے ٹریک پر حادثاتی اور طبعی موت پاتے مقامی مزدوروں کے ناموں کے بارے میں ہم کچھ نہیں جان پاتے۔
وہ گئےوقتوں کی گوروں کی نوآبادیاتی بستیاں ہوں یاآج کےدورکے فلسطین پرقابض اسرائیلی، مقامی لوگوں کی نفری محض گنتی سے آگےنہیں بڑھ پاتی۔ مقامی لوگ انسانیت کےنام پرایک انفرادی تشخص کی بھیک مانگتےایک بے نام ونشان موت مارےجاتےہیں۔ تاریخ کی کتابیں ان کا نام تک درج کرنا گوارا نہیں کرتیں۔
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...