اگر نیچرل سائنس کی بات کی جائے تو اس میں البیرونی بہتر سائنسدان تھے۔ ان کا موقف تھا کہ محض سوچ اور منطق کے استعمال سے ارسطو کئی چیزوں میں غلط نتائج پر پہنچے تھے اور اس کا طریقہ تجربات اور مشاہدات ہونا چاہیے۔ اور اس طریقے سے انہوں نے فزکس اور آسٹرونومی میں اہم دریافتیں کیں۔ ان کی ریاضی کی مہارت بھی شاندار تھی۔
ان کی ریاضی کا ایک عملی استعمال “قبلے کے مسئلے” کے حل کیلئے نکلا تھا۔ جب بھی مسلمان دنیا میں نئی مسجد بنتی تھی تو اس کو سمت کے لئے قبلہ معلوم کرنا ہوتا تھا۔ یہ آسان کام نہیں تھا۔ کرہ زمین کی گولائی پر اس کی جیومیٹری پر البیرونی کے کام کا ثانی نہیں۔
انہوں نے 1031 میں جو ریاضی کی تکنیک اس کیلئے بنائی تھی، وہ پہلے موجود نہیں تھیں۔ پہلی بار ابتدائی کیلکولس استعمال کیا گیا تھا۔ اجرامِ فلکی کی حرکت اور اسراع کی مساوات تھیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
البیرونی کا ایک اور مشہور کام زمین کا سائز معلوم کرنے کا تھا۔ اور اس کیلئے انہوں نے پہاڑ کی اونچائی کو استعمال کیا تھا۔
یہ تجربہ انہوں نے موجودہ پاکستان میں سلسلہ کوہِ نمک کی پہاڑیوں میں نندنا قلعے کے مقام پر 1020 سے 1025 کے درمیان کیا۔
یہاں پر پنجاب کے چٹیل میدان کے درمیان اونچی پہاڑی ایسا تجربہ کرنے کی بہترین جگہ تھی۔ حدِ نگاہ تک میدان کا مطلب یہ تھا کہ پہاڑ کی چوٹی سے افق تک پیمائش آسانی سے کی جا سکتی تھی۔
اس کا پہلا قدم پہاڑ کے نیچے سے اونچائی کی ٹھیک پیمائش تھا۔ پھر پہاڑ کے اوپر سے آسٹرولوب کی مدد سے زاویوں کے معمولی فرق کی پیمائش اور سادہ ریاضی کی مدد سے زمین کا radius نکالا جا سکتا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔
البیرونی نے زمین کا محیط کتنا نکالا؟ کئی بار یہ کہا جاتا ہے کہ اس کا فرق جدید ویلیو کے ایک فیصد سے بھی کم تھا لیکن یہاں پر اکائی کا مسئلہ ہے جس کی وجہ سے یہ ٹھیک نہیں بتایا جا سکتا۔ لیکن اہم اور اصل چیز یہ جواب نہیں بلکہ ان کے طریقے کا کمال ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
البیرونی کے تمام کام کا ذکر تو نہیں کیا جا سکتا لیکن ایک اور اہم شعبہ ان کا ارضیات کا کام تھا۔ انڈیا کے سفر میں انہوں نے صرف جغرافیہ، تاریخ اور کلچر کی ہی تفصیلی سٹڈی نہیں کی بلکہ جیولوجی کی بھی۔ انہوں نے معلوم کیا کہ برِصغیر کسی وقت میں سمندر تھا جو بعد میں خشکی بنا۔ اس کی وجہ وہ مٹی کا رفتہ رفتہ جمع ہونا لکھتے ہیں۔ وہ اس کا سمندر ہونے میں درست تھے۔ خشکی بننے کی اصل وجہ برِاعظموں کے سرکنا تھا لیکن اس تک پہنچنے میں ابھی نو صدیاں باقی تھیں۔
اس کے زیرِ سمندر ہونے کا اندازہ انہوں نے پتھروں کی گولائی، کھدائی میں پتھروں کی خاصیت، تیز بہاؤ اور سست بہاؤ والے پتھروں کے مطالعے سے لگایا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔
دلچسپ چیز یہ کہ البیرونی کا کام قرونِ وسطیٰ میں یورپ تک نہیں پہنچا۔ (اور اس وجہ سے ان کے نام کو کبھی latinize نہیں کیا گیا)۔ یہ یورپ میں صدیوں بعد اس وقت پہنچا جب برٹش ہندوستان آئے۔ اور خاص طور پر انڈیا پر ان کی لکھی کتاب نے برٹش کی توجہ حاصل کی۔ ہندوستان پر لکھی ان کی تحریر کی خاص بات غیرجذباتی انداز میں حقائق لکھنا ہے۔ ایڈورڈ ساکو اس پر تبصرہ کرتے ہوئے کہتے ہیں، “تلواروں کی جھنکار، جلتے شہروں، لوٹ مار اور سیاست کے بیچ میں البیرونی کی غیرجانبداری اور سرد منطقی تحریریں خاموشی کا جادوئی جزیرہ ہیں”۔
۔۔۔۔۔۔۔۔
البیرونی کے بارے میں سوویت یونین میں 1974 میں ان پرفلم “ابو رے خان البیرونی” بنی۔ چاند پر ایک گھاٹی ان کے نام پر ہے۔ ایک شہابیہ (asteroid 9936) ان کے نام پر رکھا گیا ہے۔ اینٹارٹیکا براعظم میں البیرونی کے نام پر بیرونی آئی لینڈ پر رکھا گیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
الرازی اور ابنِ سینا کے برعکس البیرونی ہمیں فکری طور پر قدامت پسند نظر آتے ہیں۔ کسی اچھے نیچرل سائنسدان کی طرح نظریاتی بحثوں سے دور رہتے تھے اور ان کی الرازی پر کی گئی تنقید ایسی بحث میں الجھنے پر ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔
اگر ابن الہیثم، ابنِ سینا اور البیرونی میں سے کسی ایک کو چننا ہو تو یہ مشکل کام ہے۔ تاہم، مورخ جارج سارٹن اپنے کام “سائنس کی تاریخ کا تعارف” میں کہتے ہیں کہ اگرچہ یہ تینوں ایک ہی دور میں تھے لیکن میں گیارہویں صدی کے پہلے نصف کو “البیرونی کا دور” کہوں گا۔
آخر میں البیرونی کا ایک منتخب قول، جو دنیا میں چند جگہوں پر آج بھی متعلقہ سمجھا جا سکتا ہے۔
“انتہاپسند کہتا ہے کہ سائنس مذہب سے دور لے جاتی ہے۔ وہ کہتا ہے کہ یہ لوگوں کو گمراہ کرتی ہے۔ وہ سائنس سے نفرت کرتا ہے۔ وہ اسلئے صرف ایسا کہتا ہے کہ اپنی جہالت کو چھپا سکے۔ اس کی بات توجہ دینے کے قابل نہیں”۔
ایک اور جگہ پر کہتے ہیں۔
“ضدی نقاد کہتا ہیں کہ سائنس کا کیا فائدہ ہے؟ اس کو پتا نہیں کہ یہی تو ہمیں دوسرے جانوروں سے جدا کرتی ہے۔ اس کو حاصل کرنے کی کوئی وجہ نہیں۔ یہ خود میں ہی مزا ہے۔ ایسا مزا جو کسی اور کاوش میں نہیں۔ علم سے سچ کو آگے لایا جا سکتا ہے۔ برائی کو اور جھوٹ کو دور کیا جا سکتا ہے۔ اور کیا فائدہ چاہیے؟ اس سے بڑا فائدہ بھی کچھ ہو سکتا ہے؟”
۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ جذبات بڑے خوبصورت طریقے سے اسلامی گولڈن عہد کی سائنس کی روح کو الفاظ دیتے ہیں۔ اور البیرونی اس کے ایک بڑے وکیل تھے۔
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...