ایک مشہور بصری ایفیکٹ جس کی وضاحت ابن الہیثم نے کی، یہ چاند کا سراب ہے۔ جب تک انہوں نے اس کی وضاحت نہیں کی تھی، اس وقت تک کسی کو اس سراب کا احساس نہیں ہوا تھا۔ چاند جب افق کے قریب ہو تو اس کا سائز بڑا لگتا ہے۔ یہی سورج اور ستاروں کے جمگھٹوں کے ساتھ بھی ہے۔
اس فینامینا کا مشاہدہ انسان قدیم دور سے کرتے آ رہے ہیں۔ ساتویں صدی قبلِ مسیح میں نینوا کی عظیم لائبریری کی تختی پر ہمیں اس کا ذکر ملتا ہے۔ قدیم یونان میں خیال تھا کہ اس کی وجہ فضا میں ہونے والا روشنی کا انعطاف ہے۔ لیکن یہ درست وجہ نہیں تھی۔
اس چیز کا پتا لگایا جا سکتا ہے کہ چاند خواہ آسمان میں کسی بھی جگہ ہو، اس کا سائز اتنا ہی رہتا ہے۔ ایک چھوٹا سکہ پکڑ کر اور بازو پھیلا کر کیا جانے والا موازنہ اس کا بتا دیتا ہے۔
ابن الہیثم وہ پہلے شخص تھے جنہوں نے اس فینامینا کو فزیکل کے بجائے نفسیات اثر کے طور پر بتایا۔
ان کی کتاب المناظر کی تین جلدوں میں ادراک کی نفسیات کا ذکر ہے۔ اور یہاں پر قدیم یونانی آئیڈیا کو مسترد کرتے ہیں۔ وہ دکھاتے ہیں کہ اس کا تعلق ادراک کی غیرمعروضیت سے ہے۔ اور یہ صرف بصارت کا دھوکا ہے۔ جب چاند آسمان پر اونچا ہوتا ہے تو قریب میں کوئی ایسا ریفرنس نہیں جس سے اس کے سائز کا موازنہ کیا جا سکے اور ذہن کے لئے اس کا فاصلہ طے کرنے کا طریقہ نہیں۔ جبکہ افق کے قریب یہ قریب محسوس ہوتا ہے اور اس وجہ سے ذہن اس کا سائز بڑا تصور کرتا ہے۔
یورپ میں الہیثم کی کتاب کا ترجمہ ہونے کے بعد یہ وضاحت قبول کی جانے لگی۔
بصارت کی نیچر پر کام کرنے کے بعد الہیثم بطلیموس اور ابنِ سھل کے کام کو آگے بڑھاتے ہیں۔ یہاں پر ابنِ سھل کا پیشکردہ law of refraction بہتر شکل میں ہے جو ابن الہیثم نہیں کر سکے۔ لیکن refraction کی فزکس میں ابن الہیثم نے کام کو آگے بڑھایا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ابن الہیثم نے فضا میں ہونے والی ریفریکشن پر کام کیا۔ ابنِ سینا کی طرح ہی ابن الہیثم کا خیال تھا کہ روشنی کی رفتار لامحدود نہیں ہے۔ ابن الہیثم کا خیال تھا کہ روشنی ایک مسلسل شعاع ہے جبکہ ابنِ سینا کا کہنا تھا کہ یہ ذرات پر مشتمل ہے (اور یہ حیران کن بصیرت تھی)۔
ابن الہیثم نے روشنی کے بکھرنے اور اپنے رنگوں میں تقسیم ہونے پر تجربات کئے۔ سایہ، دھنک اور گرہن پر ان کے کیا گیا کام یورپی احیائے نو کے دور کے کام کی بنیاد تھا جو سائنس اور آرٹ، دونوں میں استعمال ہوا۔
چودہویں صدی میں ان کی کتاب کا ترجمہ اطالوی زبان میں کیا گیا تھا۔ یہ زبان آرٹسٹ سمجھتے تھے۔ اور البرٹی، غبرٹی، اور جان ورمر نے اس کو آرٹ کی تخلیق میں گہرائی کا عنصر لانے میں استعمال کیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہاں پر کچھ بات ابنِ معاذ کی۔ انہوں نے فضائی غلاف کی بلندی کا بہت اچھا اندازہ لگایا تھا۔ انہوں نے یہ پہچان لیا کہ سورج کے غروب ہونے کے بعد والی روشنی میں فضا کی بالائی تہہ پر پائے جانے والی آبی بخارات کا عمل دخل تھا۔ انہوں نے سورج کے افق سے نیچے جانے کا زاویہ نکالا۔ اس پر انہوں نے کہا کہ غروب ہونے سے انیس درجے نیچے جانے کے بعد روشنی کا ختم ہونا یہ بتاتا ہے کہ سورج کی نچلی ترین پوزیشن سے روشنی فضا کی بالائی ترین پوزیشن تک جا کر منعکس ہو رہی ہے۔ سادہ جیومٹری کے آئیڈیا اور زمین کے سائز کو استعمال کرتے ہوئے (زمین کا سائز مامون کے وقت میں نکالا گیا تھا)، انہوں نے جواب نکالا کہ فضا کی بلندی 52 میل ہے۔
ان کے اس طریقے کو بعد میں ٹائیکو براہے نے سولہویں صدی میں بہتر بنایا اور یہ کیپلر کے کام میں استعمال ہوا۔
لیکن ابنِ معاذ کی کیلکولیشن بہت اچھی تھی۔ فضا اور باہری خلا کے درمیان کی حدِ فاصل کارمان لکیر سمجھی جاتی ہے اور یہ 62 میل کی بلندی پر ہے!!
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ریاضی میں الہیثم کا بہترین کام خمیدہ آئینوں پر تحقیق سے آیا ہے۔ یورپ میں اسے الہیثم کے نام پر ہی Alhazen problem کہا جاتا تھا۔ کیونکہ اس پر کتاب المناظر میں بڑی تفصیل سے بات کی گئی ہے۔ اس کو billiard ball problem بھی کہا جاتا ہے۔
فرض کیجئے کہ آپ بلئیرڈ کھیل رہے ہیں۔ آپ کو میز کی دیوار سے ٹکرا کر واپس گیند کو ہِٹ کرنا ہے۔ ہم ان زاویوں سے واقفیت رکھتے ہیں۔ اب فرض کیجئے کہ میز کی دیوار سیدھی نہیں بلکہ خمدار ہے۔ اب یہ مسئلہ پیچیدہ ہو جاتا ہے۔ اور اس کو صرف جیومٹری سے حل نہیں کیا جا سکتا۔ الہیثم اپنے پڑھنے والوں کو دکھاتے ہیں کہ اس کے لئے الجبرا کی ایک مشکل مساوات حل کرنا پڑے گی جو quartic ہے (یعنی کہ x کی چار کی پاور تک جانا پڑتا ہے)۔
یہ مسئلہ مشکل اس لئے ہے کہ پوزیشن میں معمولی سی تبدیلی زاویہ بدل دیتی ہے۔ الہیثم اس کا پہلا جزوی حل conic section کی تکنیک سے تجویز کرتے ہیں۔ یہ پرگا کے اپولونئیس کی دوسری صدی قبلِ مسیح میں پیش کی جانے والی تکنیک تھی۔ ابن الہیثم اس کام کو اچھی طرح سے جانتے تھے اور اس کتاب کی گمشدہ آٹھویں جلد کو واپس تخلیق کرنے میں بھی کام کیا ہے۔
ابن الہیثم نے اس مساوات کو ایک دائرے اور ایک ہائپربولا میں تقسیم کر کے حل کیا ہے لیکن یہ طویل اور پیچیدہ حل ہے۔
اور حیران کن بات یہ ہے کہ اس کے exact الجبرا کے حل تک پہنچنے کے لئے بہت انتظار کرنا پڑا۔ بہت زیادہ انتظار۔ یہ 1997 میں جا کر ممکن ہوا جب آکسفورڈ کے پیٹر نیومن نے دکھایا کہ اس کو گالیوس کی تھیوری سے حل کیا جا سکتا ہے۔
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...