آپ شاید ایسا سمجھتے ہوں کہ بصارت کو سمجھنا ایک سادہ عمل ہو۔ یہاں پر میرا مطلب یہ نہیں کہ روشنی آنکھ میں کیسے داخل ہوتی ہے۔ ریٹینا پر کیسے عکس بنتا ہے جسے اعصاب برقی سگنل کے ذریعے دماغ تک بھیجتے ہیں۔ ابھی کیلئے بات اس سے بہت زیادہ سادہ سوال کی ہے۔ یعنی کہ آنکھ میں روشنی نے داخل ہونا ہے تا کہ دیکھا جا سکے۔ یقینی طور پر یہ آسان اور عام فہم علم ہونا چاہیے؟ نہیں۔ ایسا نہیں تھا۔ ابن الہیثم کے وقت تک اس بات پر اتفاق نہیں تھا اور اس پر ہونے والا کام ایک عجیب کھچڑی تھی۔
یونانیوں نے بصارت کی کئی تھیوریاں بنائی تھیں۔ اقلیدس اور بطلیموس کا اتفاق اس پر تھا کہ آنکھ سے شعاع نکلتی ہے جو کسی شے سے ٹکراتی ہے تو ہم دیکھتے ہیں۔
جبکہ دوسری طرف، ارسطو کا نقطہ نظر زیادہ بہتر تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ روشنی اس شے سے آنکھ میں داخل ہوتی ہے تو ہم دیکھتے ہیں لیکن ارسطو کا کہنا تھا کہ کسی شے اور آنکھ کے درمیان کا خلا اس دوران روشن ہو جاتا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔
اقلیدس کے پاس اپنی تھیوری کا دفاع اس طرح سے تھا: اپنی آنکھ کے بالکل سامنے سوئی بھی مشکل سے ہی نظر آتی ہے۔ اور اسے دیکھنے کیلئے نگاہ اس طرف مرکوز کرنا پڑتی ہے۔ اگر سوئی سے آنکھ تک ہر وقت روشنی آ رہی ہو تو پھر ایسا نہ ہو۔ اگر ہماری آنکھ کھلی ہو اور نگاہ جہاں پر بھی ہو، ہمیں سوئی نظر آنی چاہیے۔ اس لئے واحد معقول حل یہ ہے کہ آنکھ براہِ راست شعاع بھیج رہی ہے۔ آنکھ اس عمل میں متحرک کردار ادا کرتی ہے نہ کہ صرف سوئی سے واپس آنے والی روشنی پر بھروسہ کرتی ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مسئلہ مزید پیچیدہ ہو جاتا تھا کیونکہ افلاطون اور جالینوس نے ایک اور تھیوری بنائی تھی جو کہ ان دونوں کا مکسچر تھی۔ آنکھ شعاع خارج کرتی تھی۔ یہ اس شے پر پڑتی تھی، واپس پلٹ کر آتی تھی اور پھر ہمیں وہ نظر آتی تھی۔
اسلامی سکالرز میں الکندی اور حنین بن اسحاق اس کے قائل تھے۔
اس پر غور کرنے میں صدیاں لگی تھیں اور دنیا کی تاریخ کے بہترین دماغوں نے اس پر کام کیا تھا۔ اس پرانے مسئلے کو ابن الہیثم نے حل کیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
الہیثم کتاب المناظر میں لکھتے ہیں، “ہم جانتے ہیں کہ اگر بہت زیادہ روشن شے کو دیکھا جائے تو آنکھ کو ضرر پہنچتا ہے۔ جب کوئی مبصر سورج کو دیکھنا چاہے تو ایسا ٹھیک سے نہیں کر سکتا۔ اس کی آنکھ میں ہونے والی تکلیف کی وجہ روشنی ہے۔۔ سورج کا کچھ ایکشن تھا جس نے آنکھ کو نقصان پہنچایا”۔
الہیثم afterimage کی دلیل کو بھی استعمال کرتے ہیں۔ (اگر کسی روشن چیز پر دیر تک نگاہ جمائے رکھا جائے اور پھر دوسری طرف دیکھا جائے تو اس کا عکس نگاہ میں کچھ وقت کے لئے رہ جاتا ہے)۔
الہیثم ارسطو کی دلیل کو بھی دہراتے ہیں۔ “رات کے آسمان پر چمکتے تاروں کو روشنی ہماری آنکھ نہیں دے رہی”۔
الہیثم اس سے نتیجہ نکالتے ہیں کہ آنے والی روشنی آنکھ میں کچھ اثر پیدا کر رہی ہے۔
اس کے بعد وہ بہترین منطق کا سہارا لے کر اور emission theory کا ستیاناس کر دیتے ہیں۔ “اگر ہم اس لئے دیکھتے ہیں کہ آنکھ سے نکلی ہوئی شعاع کسی شے پر پڑے تو اب دو باتیں ہو سکتی ہیں۔ یا تو وہ شے آنکھ تک کچھ اطلاع دے گی یا پھر نہیں دے گی۔ اگر تو یہ اطلاع واپس نہیں ملتی تو آنکھ کو بھلا کیسے پتا لگے گا کہ اس کی شعاع کس شے پر پڑی ہے؟ اس کا مطلب یہ ہے کہ دیکھنے کیلئے روشنی کے واپس آنے کی ضرورت تو ہر صورت میں ہے۔ اور اگر ایسا ہے تو پھر آنکھ سے نکلنے والے اصل “شعاع” کا کیا کام بنتا ہے؟ اگر وہ شے روشن ہے تو پھر وہ روشنی براہِ راست آنکھ تک پہنچ جائے گی۔ اس میں آنکھ سے نکلنے والی شعاع ایک غیرضروری پیچیدگی رہ جاتی ہے اور اسے وضاحت سے نکال دینا چاہیے”۔
یہاں پر انہوں نے جو فلسفانہ اصول استعمال کیا، یہ اب Occam’s razor کہلاتا ہے۔ (یہ برطانوی فلسفی اوکم کے نام پر رکھا گیا ہے جس کے مطابق کسی چیز کی وضاحت اس طریقے سے کی جانی چاہیے جس میں کم سے کم مفروضے لینے پڑیں)۔
لیکن ابن الہیثم اپنے فلسفانہ دلائل میں اس سھی بھی آگے گئے اور ایک گہرا کام کیا۔ انہوں نے اقلیدس کے جیومٹری ماڈل کو بصارت کی تھیوری پر استعمال کیا۔ اس میں کسی شے سے نکلنے والی شعاعیں سیدھی لکیروں کی صورت میں پھیلتی تھیں۔ اور بصارت کی تھیوری کو ریاضی کا رنگ دیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جو کام ابن الہیثم نہیں کر سکے، وہ اس کا تعلق آنکھ کے کام کرنے کے طریقے سے جوڑنے کا تھا۔ وہ اس معمے کے آخری ٹکڑے کو حل نہیں کر سکے کہ اشیا ریٹینا پر عکس کس طرح بناتی ہیں۔ اور اس سے آگے وہ نفسیات کی طرف چلے گئے۔ ایسا کیوں؟ اس کی ایک جزوی وجہ یہ تھی کہ اس وقت آنکھ کی سمجھ نامکمل تھی۔ الہیثم کے پاس اس بارے میں جالینوس کا علم تھا۔ اور سترہویں صدی میں جا کر پہلی بار کیپلر نے آنکھ کی درست وضاحت کی کہ یہ کیمرے کے طرز پر کام کرتی ہے۔
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...