الخوارزمی کی شہرت کی ایک وجہ یہ ہے کہ ان کا کام دو بار لاطینی زبان میں ترجمہ کیا گیا۔ ایک بار اٹلی کے جیرارڈ آف کریمونا نے اور ایک بار برطانیہ کے رابرٹ آف چیسٹر نے۔ ان کے کام سے عظیم ریاضی دان فبوناچی بھی مستفید ہوئے۔
لیکن انسانی تاریخ میں الجبرا کی ضرورت نئی نہیں۔ زراعت کے رقبے سے لے کر اقتصادیات کے مسائل، وراثت اور ٹیکس کا حساب ۔۔۔ الجبرا کسی شکل میں اسلام سے بہت پہلے موجود تھا۔
بابل کی ایک تحتی میں ہمیں ایسی مشق نظر آتی ہے جس کو حل کرنے کیلئے quadratic equation کی ضرورت تھی۔ یا اقلیدس کی کتاب سے ایسی مثالیں لی جا سکتی ہیں جن کو آج بنیادی الجبرا میں پڑھایا جا سکتا ہے۔ (اقلیدس انہیں جیومیٹری سے حل کرتے ہیں جبکہ الجبرا کا حل زیادہ خوبصورت ہوتا)۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اگر یونان اور بابل میں ریاضی کی مساوات کو الخوارزمی سے پہلے حل کیا جا رہا تھا تو پھر انہیں الجبرا کا بانی کیوں کہا جائے؟ اور ہندوستان کے عظیم ریاضی دانوں، جیسا کہ براہم گپتا کی خدمات کے بارے میں؟
یونان کے ڈیوفانٹس تیسری صدی میں سکندریہ سے تھے۔ ان کی کتاب اعداد پر ہے۔ اور وہ نامعلوم اعداد کے لئے علامات کا استعمال کرتے ہیں۔ منفی اور مثبت کی ضرب، پاور وغیرہ کا استعمال کیا جاتا ہے۔ جدید نمبر تھیوری کے بانی پیرے ڈی فغماں نے اپنا مشہور آخری تھیورم ڈیوفانٹس کی کتاب کے حاشیوں میں لکھا ہے۔
ساتویں صدی میں عظیم ہندوستانی ریاضی دان براہم گپتا Pell equation کا چیلنج لیتے ہیں۔
x^2-ay^2=1
کی مساوات میں براہم گپتا کہتے ہیں کہ اگر a کی قدر 92 ہو تو پھر x اور y کیا ہوں گے؟
براہم گپتا کے مطابق، “اگر کوئی اس کو ایک سال کے اندر حل کر لے تو وہ خود کو ریاضی دان کہلوا سکتا ہے”۔ آجکل اس کا جواب کمپیوٹر کی مدد سے بہت جلد نکالا جا سکتا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اور یہ ہمیں نویں صدی کے بغداد میں واپس لاتا ہے۔
الخوارزمی اپنی کتاب میں بتاتے ہیں کہ اس کو لکھنے کا مقصد یہ ہے کہ حساب کرنے کی سب سے مفید اور آسان تکنیک بتائی جا سکیں۔ وراثت، تقسیم، قانون، تجارت، معاملات، زمین کی پیمائش، نہروں کی کھدائی، جیومیٹری کے حساب وغیرہ کے مسائل حل کئے جا سکیں۔ کتاب کے دو حصے ہیں۔ پہلا وہ ہے جہاں الخوارزمی الجبرا کے قوانین بتاتے ہیں اور مسئلہ حل کرنے کے سٹیپ (الگورتھم) لکھتے ہیں۔ اور پھر اپنے جواب کا ثبوت دیتے ہیں۔
دوسرا حصہ ان طریقوں کا عملی استعمال ہے اور اس میں طرح طرح کے مسائل کا ذکر ہے۔
یہ کتاب کسی کے لئے آج پڑھنا مشکل ہو گا کیونکہ یہ آج کے کسی الجبرا کی کتاب جیسی نہیں۔ اس میں علامات اور notations کا استعمال نہیں کیا گیا بلکہ الفاظ میں لکھا گیا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ چند لائنوں کے سوال پر دو صفحات لگ جاتے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تو پھر الخوارزمی کی کتاب میں کیا خاص بات ہے؟
واروک یونیورسٹی کے شعبہ ریاضی کے پروفیسر آئن سٹیورٹ کی مہارت الجبرا کی تاریخ میں ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ اس کا تعلق اس سے نہیں کہ سوالات کتنے مشکل ہیں، علامات استعمال کی گئی ہیں یا نہیں، جیومیٹریکل ثبوت ہیں یا نہیں یا پھر کتاب کتنی عام فہم ہے۔ ایک چیز جو الخوارزمی نے پہلی بار کی اور جو انہیں اپنے سے پہلے آنے والوں سے ممتاز کرتی ہے، وہ یہ کہ ان کی توجہ کسی ایک خاص سوال کو حل کرنے پر نہیں ہے۔ وہ اس کو ترک کر دیتے ہیں اور ان کا موضوع ایسی اصول اور قواعد مرتب کرنا ہے جو اس قسم کی تمام مساوات کو حل کر سکیں۔ یہ الگورتھم ہیں۔ اور اس نے الجبرا کو الگ مضمون کے طور پر کھڑا کر دیا۔ اور یہ اب صرف اعداد سے کھیلنے کا مضمون نہیں رہا۔
انہوں نے نامعلوم کو ایک شے بنا دیا۔ (وہ اس کے لئے شئ کی اصطلاح ہی استعمال کرتے ہیں۔ اور یہ اصل الجبرا ہے۔
ڈیوفانٹس کی دلچسپی اعداد کی تھیوری میں تھی۔ اقلیدس کی جیومیٹری میں۔ جبکہ الخوارزمی کی کتاب پہلی بار الجبرا کو الگ مضمون کے طور پر لیتی ہے۔
۔۔۔۔۔۔
الخوارزمی کے بیانی الجبرا سے آج کے علامتی الجبرا تک کا سفر بہت آہستہ رہا۔ علامات کے استعمال سے الجبرا کی پہلی کتاب 1693 میں جان والس نے لکھی ہے۔ الفاظ کی جگہ پر علامات کا استعمال غیرمتنازعہ نہیں رہا لیکن اختصار کی وجہ سے بالآخر یہ جیت گیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
الخوارزمی کا انتقال 850 میں ہوا۔ وہ اس نئے شعبے کی بنیاد رکھ گئے تھے۔ ان کے نقشِ قدم پر چل کر ان کا کام آگے بڑھانے والوں میں ابو کامل، الکارخی، الطوسی، الفارسی، البسطی جیسے ریاضی دان تھے۔ ان میں ایک بڑا نام عمر خیام کا تھا۔ انہوں نے عربی کے بجائے فارسی میں لکھا ہے۔ اور cubic مساوات پر ان کا بڑا کام ہے۔ انہیں الجبرا اور ریاضی کے ذریعے حل کرنے کے طریقے بنائے۔
عمر خیام نے اپنی نوجوانی میں سورج گھڑی، پانی کی گھڑی اور آسٹرولیب کی مدد سے سال کی پیمائش کی جو کہ 365.24219858156 دن کی تھی۔ یہ چھ ڈیسیمل جگہوں تک آج کی جدید کیلکولیشن سے مطابقت رکھتا ہے۔
اور یہ فرق بھی لازم نہیں کہ پیمائش کی inaccuracy کی وجہ سے ہو۔ زمین کی گردش سست ہو رہی ہے۔ یہ فرق ایک صدی میں دو ملی سیکنڈ کا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ایک سال میں دنوں کی تعداد کم ہو رہی ہے۔ عمر خیام کے وقت سے اب تک اس میں 0.02 سیکنڈ کا فرق پڑ گیا ہے۔
عمر خیام نے اس پیمائش کی بنیاد پر ایک کیلنڈر بنایا جو آج استعمال ہونے والے گریگورین کیلنڈر سے زیادہ ایکوریٹ تھا (گریگورین کیلنڈر میں 3330 سال میں ایک دن کا فرق پڑتا ہے)۔ اس کیلنڈر کو 1079 میں بنایا گیا۔ اور اسے اس وقت کے سلجوق بادشاہ جلال الدین ملک کے نام پر “تقویمِ جلالی” کا نام دیا گیا۔ اس نے اس وقت کے رائج قمری کیلنڈر کی جگہ لی۔ آج اس کی ایک شکل ایران اور افغانستان میں استعمال کی جاتی ہے۔
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...