زمین کا سائز معلوم کرنے کے علاوہ مامون کا ایک اور بڑا پراجیکٹ جغرافیے کا تھا۔ بطلیموس نے جغرافیہ نام سے کتاب لکھی تھی جس میں عرض بلد اور طول بلد کا تصور پیش کیا گیا تھا۔ اس کتاب کو الخوارزمی کی مدد سے عربی میں ترجمہ کیا گیا تھا۔ اور اس کو دیکھتے ہوئے مامون نے دنیا کا نقشہ تیار کرنے کا حکم دیا تھا۔
بطلیموس کے نقشے میں بغداد اور مکہ جیسے شہر نہیں تھے۔ اس وقت بغداد موجود نہیں تھا اور مکہ اتنی اہمیت نہیں رکھتا تھا۔ مامون کے ماہرینِ فلکیات نے ان کے درمیان کا فاصلہ چاند گرہن کے وقت لی گئی پیمائشوں سے معلوم کیا تھا اور اسے 712 میل نکالا تھا (یہ اصل سے دو فیصد کے اندر اندر ہے)۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مامون کے ماہرین نے اہم جگہوں کے کوآرڈینیٹ نکالنا شروع کئے اور پتا لگا کہ بطلیموس کے نقشے میں غلطیاں تھیں۔
اس پراجیکٹ میں نیا نقشہ بنا۔ اس میں بہت کچھ نیا تھا۔ بحرِ اوقیانوس اور بحرِ ہند کو پانی کے کھلے اجسام کے طور پر دکھایا گیا تھا، (بطلیموس نے انہیں جھیل کے طور پر دکھایا تھا)۔ یونانیوں کو بحیرہ روم جیسے چھوٹے سمندروں کا تو پتا تھا لیکن بڑے بحر کا نہیں۔ جبکہ عرب تاجر ان سے اچھی واقفیت رکھتے تھے۔
بدقسمتی سے عباسی دور میں تیار ہونے والا یہ نقشہ آج محفوظ نہیں۔ ہمیں اس کے بارے میں اس وقت لکھی تحریر صورت العرض سے پتا لگتا ہے۔ یہ الخوارزمی کی لکھی تحریر ہے اور وہ خود اس پراجیکٹ کا حصہ تھے۔ یہ 833 میں مکمل ہوا (اور یہی مامون کی وفات کا سال تھا)۔ اس میں پانچ سو شہروں کے عرض بلد اور طویل بلدن تھے۔ جگہوں کو پانچ ہیڈنگ میں لکھا گیا تھا۔ شہر، دریا، پہاڑ، سمندر اور جزیرے۔
نقشہ بندی کا کام آگے چلتا رہا۔ ال بلخی، الادریسی، ابنِ خلدون، ابنِ سینا، ابنِ بطوطہ وغیرہ کا اس میں حصہ ہے۔ لیکن ریاضیاتی جغرافیے کی ابتدا مامون کے دور کے سکالرز نے کی تھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔
ایک اور دلچسپ علاقہ جو مامون کے لئے جنون بن گیا تھا، وہ حیران کن لگے۔ یہ مصریات (Egyptology) تھا۔
قاہرہ کے باہر الجیزہ کے اہرام ساڑھے چار ہزار سال پرانے ہیں۔ مامون کے وقت میں بھی انہیں ساڑھے تین ہزار سال گزر چکے تھے۔
قدیم مصری تہذیب اس وقت بھی وقت کے دھندلکوں میں ڈھکی تہذیب تھی۔
دسویں صدی کے مورخ المسعودی لکھتے ہیں۔
“مصر میں عبادت گاہیں بہت دلچسپ تعمیرات ہیں۔ اور پھر اہرام ہیں۔ بہت اونچے اور شاندار۔ ان کی اطراف میں قسم قسم کی تحریریں کنندہ ہیں۔ قدیم اقوام اور بادشاہتوں کی لکھی ہوئی جو اب موجود نہیں۔ کسی کو پتا نہیں کہ یہ سب کیوں ہے”۔
۔۔۔۔۔۔۔۔
مامون 816 میں ایک بغاوت فرو کرنے مصر گئے۔ یہاں پر اہرامِ مصر ان کی دلچسپی کا محور بن گئے۔ وہ ڈھونڈتے رہے کہ کوئی اس پرانی تاریخ کے بارے میں انہیں بتا سکے لیکن کامیابی نہ ہوئی۔
مامون کا ترجمے کا جنون انہیں یہاں کی تحریروں کا سراغ لگانے کی طرف لے گیا۔
مصر میں مامون نے ایوب ابنِ مسیلمہ کی خدمات حاصؒ کیں کہ وہ ان کا ترجمہ کر سکیں۔ یہاں پر بولی جانے والی مقامی قبطی زبان اس وقت سے ہی نکلی تھی، اس لئے مامون کو امید تھی کہ یہاں سے مدد مل سکے گی۔ لیکن خلیفہ کے لئے مایوسی رہی کہ ایوب اس میں ناکام رہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مامون نے خوفو کے اہرام کو کھوجنے کا حکم دیا۔ ایک ٹیم نے اس کے اندر پہنچنے کا راستہ تلاش کر لیا۔ خلیفہ خود اس ٹیم کا حصہ تھے۔ یہاں پر انہیں سونے کا مرتبان بھی ملا جو مامون بغداد لے گئے۔
اہرام کے اندر انہیں اوپر اور نیچے چڑھتی راہداریاں ملیں۔ سب سے اوپر ایک چھوٹا کمرہ تھا۔ اس کے بیچ میں سنگِ مرمر کا تابوت تھا جو مہربند تھا۔ فرعون کی ممی اس کے اندر تھی۔ اب مامون مزید مقبرے کی بے حرمتی نہیں کرنا چاہتے تھے۔ انہوں نے مزید کھوج کو روک دینے
کا حکم دے دیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہاں پر ایک اور دلچسپ چیز یہ ہے کہ مامون سے کچھ ہی عرصہ بعد کوفہ میں عرب سکالر مصری رسم الخط کی نصف علامات کے مطلب کا پتا لگانے میں کامیاب ہو چکے تھے۔
سقارہ مصر کا قدیم قبرستان ہے جو الجیزہ کے اہرام سے بھی چند صدیاں پرانا ہے۔ لندن کے ماہرِ مصریات عکاشہ الدالی نے یہاں پر قدیم مصر کے بارے میں عرب دور کی سٹڈی کی ہے۔ وہ بتاتے ہیں کہ ابنِ وحشیہ کے نام سے نویں یا دسویں صدی میں ایک شخص تھے جنہیں پہلا اصل مصریات کا ماہر کہا جا سکتا ہے۔
مغربی دنیا میں ایک عام مفروضہ ہے کہ مصر کا hieroglypic code اس وقت سمجھ میں آیا تھا جب تھامس ینگ اور جین فراسوئے کامپولین نے روزیٹا لوح کی لکھائی کو بے نقاب کیا تھا۔ لیکن ابنِ وحشیہ کی لکھی “کتاب شوق المستھام” میں مصری علامات اور ان کے عربی مطالب کی فہرست ہے۔ اور یہ روزیٹا لوح سے ایک ہزار سال پہلے کا وقت ہے۔
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...