نوجوان سائنسدان نے چرس کا کش لیا تھا۔ اپنے دوست کے کمرے میں بستر پر لیٹے ہوئے چھت پر دیکھ رہا تھا۔ یہ ایک پودے کا سایہ تھا۔ آوارہ آنکھوں سے اسے دیکھتے ہوئے اسے اس سائے میں ایک گاڑی نظر آئی۔ یہ ایک فوکس ویگن لگ رہی تھی۔ اپنی تمام تفصیلات کے ساتھ۔ چرس نے اس کے کوگنیٹو فلٹر کو ڈھیلا کر دیا تھا۔ اور یہ خبطی خیال اس سے نکل کر شعور تک پہنچ گیا تھا۔ یہاں پر تجزیاتی ذہن نے اسے جھڑک دیا اور اسے سراب قرار دے کر شعور سے ہٹا دیا۔ یہ اس کا پہلا تجربہ تھا۔ یہ غیرقانونی کام تھا۔ اس سائنسدان نے جب نشے کے اثرات پر مضمون لکھا تو اس میں اپنا نام مسٹر ایکس لکھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس نے لکھا کہ اس کیفیت میں موسیقی اور آرٹ کو دیکھنے کا طریقہ بھی بدل جاتا ہے۔ نشہ شخصیت میں پائے جانے والے شیزوٹائپک خاصیتوں میں اضافہ کر دیتا ہے۔ آج ہم جانتے ہیں کہ ایسا کیوں ہے۔ اس میں ایکٹو جزو THC ہے جو پری فرنٹل لوگ کے فنکشن کو دباتا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نوجوان سائنسدان نے اپنے مضمون کا اختتام ان الفاظ پر کیا کہ اسے غیرقانونی نہیں ہونا چاہیے۔ اس خطرناک دنیا میں یہ نشہ سکون اور بصیرت کی راہ کھول سکتا ہے۔ یہ سائنسدان کارل ساگان تھے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ساگان اس نشے کے اثرات تو ٹھیک بیان کر رہے تھے لیکن اس کے مضر اثرات بہت زیادہ ہیں۔ اور خاص طور پر جو لوگ شیزوٹائپی میں آگے ہوتے ہیں، یہ انہیں سائیکوسس کی طرف دھکیل دیتا ہے اور اس ذہنی انتشار سے واپس آنا آسان نہیں ہے۔ یہ ذہن کو ڈھیلا کر سکتا ہے لیکن اتنا زیادہ بھی کہ یہ بالکل ہی گر جائے۔ ذہنی ہائیرارکی میں اس سے پڑنے والے خلل کے طاقتور نقصانات ہیں اسے استعمال کیلئے غیرعملی بناتے ہیں۔
لیکن خوش قسمتی سے اپنے ذہن کی لچک کو آزاد کرنے کے بہتر طریقے موجود ہیں۔ 2015 میں فرانس کے محققین نے دکھایا کہ کسی چیلنج کرنے والے انٹلکچوئل مسئلے پر غور کرنے سے پہلے اپنے ایگزیکٹو دماغ کو تھکا دینا ایک اچھی حکمتِ عملی ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس تجربے میں شرکاء کے ایگزیکٹو دماغ کو تھکانے کیلئے ایک مشق بنائی گئی جو سائمن ٹاسک کہلاتی ہے۔ اس میں شرکاء کو کمپیوٹر سکرین پر دائیں یا بائیں طرف اشارہ کرنے والے تیر دکھائے گئے۔ ان میں سے درمیان والے تیر کو میچ کرنا تھا۔ اس میں شرکاء کو تیروں کو نظرانداز کر کے درمیان والے تیر کو مرکزِ نگاہ بنا کر فیصلہ لینا تھا۔ چالیس منٹ تک جاری رہنے والی یہ مشق ذہنی طور پر تھکا دینے والی ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جب شرکاء سائمن ٹاسک سے تھک گئے تو انہیں عام گھریلو اشیاء دکھائی گئیں۔ بالٹی، اخبار، اینٹ۔ اور اس کے استعمال بتانے تھے۔ سکور کرنے کا معیار یہ تھا کہ اس کے کتنے ایسے استعمال بنا سکتے ہیں جو کہ اچھوتے ہوں۔ (اچھوتے پن کا معیار یہ تھا کہ وہ استعمال باقی لوگوں نے نہ سوچے ہوں)۔ ان لوگوں کے سکور کا موازنہ کنٹرول گروپ سے کیا گیا جس نے سائمن ٹاسک نہیں کیا تھا۔
محققین نے معلوم کیا کہ تھکے ہوئے ذہن میں آئیڈیاز کا تنوع بہت زیادہ تھا۔
اس سے سبق یہ ملتا ہے کہ اگرچہ ہمارا خیال ہے کہ ہم اس وقت اچھے خیال پیدا کر سکتے ہیں جب ذہن تازہ ہو۔ یہ بات توجہ طلب تجزیاتی کاموں کے لئے تو ٹھیک ہے۔ لیکن لچکدار سوچ اس وقت زیادہ ہوتی ہے جب ہم تھک چکے ہوں۔ توجہ طلب اور فوکس والے کام کر لینے کے بعد اوریجنل سوچ کی پیداوار زیادہ ہونے کا امکان ہے۔
اور اس کے لئے نشے جیسی مضر چیز کی بھی ضرورت نہیں۔
لیکن تخلیقی خیالات کو جِلا دینے کے لئے ایک اور بھی آسان طریقہ ہے۔ اور یہ آپ کا موڈ ہے۔
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...