کیا آپ کے ساتھ کبھی ہوا ہے کہ آپ کی آنکھوں کے عین سامنے کوئی واقعہ ہو رہا ہو اور آپ کو اس کا پتا ہی نہ لگے۔ اگر آپ کا خیال ہے کہ ایسا نہیں ہوتا تو یہ درست خیال نہیں۔ ایسا ہر وقت ہوتا رہتا ہے۔
اس پر ایک مشہور تجربہ “غائب گوریلا” کا ہے۔ اس میں ایک ویڈیو دکھائی جاتی ہے جس میں کھلاڑی باسکٹ بال پاس کر رہے ہیں اور آپ نے گننا ہے کہ اس میں انہوں نے کتنے پاس دئے۔ اس دوران میں ایک شخص گوریلا کا سوٹ پہنے سکرین پر سامنے سے گزرتا ہے۔ درمیان میں کھڑا ہو کر چھاتی پیٹتا ہے اور چلا جاتا ہے۔ جو لوگ باسکٹ بال کے پاس گن رہے ہیں، ان سے ان کی گنتی کا پوچھنے کے بعد آخر میں پوچھا جاتا ہے کہ آیا انہوں نے ویڈیو میں کچھ عجیب چیز تو نہیں دیکھی تو اکثریت نے اس دوران اس گوریلا کو نہیں دیکھا ہوتا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
غائب گوریلا ایسے تجربے کی مثال ہے جس وقت ایک جگہ پر مرکوز توجہ ہماری نگاہوں کے سامنے کی چیز کو اوجھل کر دیتی ہے لیکن ہمارے ساتھ ہر وقت یہ عمل جاری رہتا ہے۔ اس وقت بھی آپ کے گرد جو جاری ہے، اس میں سے کئی سامنے کی چیزیں ہیں جو آپ نوٹ نہیں کر رہے۔ اور ایسا صرف بصارت کے ساتھ ہی نہیں بلکہ خیالات کے ساتھ بھی ہے۔
ایسا کیوں؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہمارے پاس انفارمیشن کا سیلاب ہے۔ مثال کے طور پر بصری سسٹم ایک کروڑ بِٹ فی سیکنڈ پراسس کر رہا ہے۔ لیکن شعوری پراسسنگ کی صلاحیت محض چالس سے ساٹھ بِٹ فی سیکنڈ ہے جو کہ غیرشعوری حصے کی کیپیسٹی کے مقابلے میں بہت ہی کم ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ پرائمری ویژوئل کورٹیکس سے آنے والی بہت کم انفارمیشن شعوری ذہن تک پہنچتی ہے۔
اور یہاں پر “کوگنیٹو چھلنیاں” لگی ہیں۔ ان کا کام یہ اندازہ لگانا ہے کہ اس میں سے کیا اہم ہے یا کیا متعلقہ ہے۔ یہ والا شعوری حصے تک پہنچ جاتا ہے جبکہ باقی سنسر ہو جاتا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اب اگلا سوال یہ کہ یہ چھلنی کیسے کام کرتی ہے؟ اس کا تعلق ہمارے دنیا کے بارے میں یقین سے ہے اور دنیا میں ہمارے پچھلے تجربات سے ہے۔ ان کی مدد سے یہ فیصلہ ہوتا ہے۔ ایسے واقعات جو روٹین کے ہوں، وہ نظرانداز کر دئے جاتے ہیں۔ یا جب دھیان کسی جگہ پر مرکوز ہو تو پھر اس سے ہٹ کر باقی چیزیں نظرانداز ہو جاتی ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اور بالکل اسی طرح، ہمارے آئیڈیا بھی اسی قسم کی چھلنیوں سے گزرتے ہیں۔ اور ایسا کیا جانا ضروری ہے۔ ورنہ ہمارا غیرشعوری ذہن ایسوسی ایشن بنانے میں کمال مہارت رکھتا ہے۔ ہمارے کچھ خیالات مفید ہوتے ہیں جبکہ بہت سے نہیں۔ اور اگر آپ کی اس divergent سوچ کو قابو میں نہ رکھا جائے تو آپ غیرمفید خیالات کے سیلاب میں ڈوب جائیں گے۔
ہماری یہ کوگنیٹو چھلنیاں پسِ پردہ اپنا کام بہت جلد اور مسلسل کرتی رہتی ہیں تا کہ غیرمفید کو دبایا جا سکے اور توجہ اہم کی طرف رکھی جا سکے۔ اگر آپ باتھ روم کا فرش بنوا رہے ہیں تو یہاں پر ٹائل، سنگِ مرمر، چپس لگانے کا سوچ سکتے ہیں۔ لیکن یہاں پر ان کی جگہ پر کوئلے، اخبار یا بانس؟ خیال تو کچھ بھی آ سکتا ہے۔ سوچ پر لگائی یہ قدغن ان چھلنیوں کا کام ہے جو ایسے ممکنات کا حذف کر دیتی ہیں جو کہ غیرمفید لگیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
فلٹر کرنے کے اس پراسس کا ایک نقصان یہ ہے کہ غیرشعوری ذہن سے آنے والے اچھے آئیڈیا بھی کئی بار اس کا شکار ہو جاتے ہیں۔ وہ حصہ جو اخبار سے بنے فرش کے خیال کو روک دیتا ہے، کئی بار بہت اچھوتے اچھے خیالات کو بھی۔
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...