ٹیکنالوجی نے آج ہمیں پہلے سے زیادہ مصروف کر دیا ہے۔ ہمارے پاس انفارمیشن کی بھرمار ہے۔ فیصلے لینے ہیں، کام نمٹانے ہیں۔ اور اس کیلئے ہمارے پاس سمارٹ فون ہیں۔ اوسط شخص ایک دن میں 34 بار (!!) اپنے فون کو مختصر وقت کے لئے (تیس سیکنڈ سے کم) دیکھتا ہے جبکہ لمبی کال یا گیمز اس کے علاوہ ہیں۔ 58 فیصد لوگوں نے پچھلے ایک گھنٹے میں اپنا فون چیک کیا تھا۔
اس کا مثبت اثر بھی ہو سکتا ہے۔ ہم اپنے دوستوں اور خاندان سے بہتر روابط رکھ سکتے ہیں۔ ہمارے پاس معلومات اور تفریح فوری اور ہر وقت اور ہر جگہ دستیاب ہے۔ لیکن اس کی منفی سائیڈ بھی ہے۔
ان میں سے ایک یہ کہ یہ نشہ آور ہے۔ ایک سٹڈی میں شرکاء کو دو روز تک کوئی بھی پیغام بھیجنے سے منع کیا گیا۔ اس پر ہونے والے احساس تنگی، بے چینی اور پریشانی کے تھے۔ پیغام موصول ہونے پر نہ فوری نہ دیکھنا بلڈ پریشر میں اضافہ اور بے چینی پیدا کرتا تھا۔ اور ایسے بہت سے لوگ تھے جن کا خیال تھا کہ وہ فون اس وقت بھی استعمال کرتے ہیں جب انہیں پتا ہے کہ نہیں کرنا چاہیے۔ یہ نشے کی کلاسک علامات ہیں۔
نشہ ہونے کی وجہ ایکٹیویٹی کی بمباری ہے اور دماغ اس کا عادی ہو جاتا ہے۔ یہ ویسا ہی ہے جیسے کیمیکل نشہ۔ جب سوشل میڈیا کی اپنی پسندیدہ سائٹ کھولیں یا پیغامات چیک کریں تو اس وقت دلچسپی کی چیز انعامی مرکز میں ہِٹ دیتی ہے۔ اگر جب اس کی عادت ہو جائے تو ایسا نہ ہونا بوریت کا سبب بنتا ہے۔
ویڈیو گیمز کے نشے کے وقت ڈوپامین کا اخراج amphetamine کے انجیکشن سے زیادہ تھا۔
لیکن اس مسلسل ایکٹیویٹی میں جو چیز سب سے زیادہ متاثر ہو رہی ہے وہ دماغ کا ڈیفالٹ موڈ ہے۔ کئی لوگ “کچھ نہ کرنے” کو وقت کا ضیاع سمجھتے ہوں گے لیکن ذہنی آرام کی کمی ہمارے لئے اچھی نہیں۔
شعوری کنٹرول کے بغیر ہونے والے اندرونی مکالمے ہماری زندگی کے بیانیے بنتے ہیں۔ یہ ہماری ہونے کے احساس کو مضبوط کرتے ہیں۔ مسائل اور مشکلات کو نئے زاویے سے دیکھنے کا موقع دیتے ہیں اور نئے خیالات کو جنم دیتے ہیں۔ اور ان سے غیرمتوقع اور تخلیقی حل برآمد ہوتے ہیں۔
اس رات جب میری شیلے نے فرینکسٹائن کا کردار تخلیق کیا تھا ۔۔۔ اگر ان کے پاس موبائل فون ہوتا تو اپنی سوچوں کو آوارہ چھوڑنے کے بجائے شاید اپنی شعوری توجہ اپنے فون کی سکرین ان کی توجہ اپنی طرف کھینچ لیتی اور یہ آئیڈیا ابھرنے نہ پاتا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
لچکدار سوچ کا ایسوسی ایشن والا پراسس اس وقت زیادہ مفید نہیں جب شعوری توجہ فوکس کی حالت میں ہو۔ ایک relaxed ذہن نت نئے خیالات کو کھوجتا ہے جبکہ ایک مصروف ذہن ان خیالات کے ساتھ رہتا ہے جس سے وہ واقف ہو۔
بدقسمتی سے ٹیکنالوجی کا ایک نتیجہ یہ ہے کہ ہمارے ڈیفالٹ نیٹورکس کو کم وقت مل رہا ہے۔ اس کا نتیجہ اچھوتے خیالات میں رکاوٹ ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اور دوسری طرف، ٹیکنالوجی میں ہونے والی ترقی کا مطلب یہ ہے کہ ہمیں اپنی لچکدار سوچ کی زیادہ ضرورت ہے۔ اور اس وجہ سے ہمیں ذہنی آرام کے جزیرے درکار ہیں۔ اور اس نے ایک نئے شعبے کو جنم دیا ہے جو کہ ایکوسائیکولوجی کا ہے۔
ایکوسائیکولوجسٹ اپنے خیالات کے لئے سائنسی شواہد اکٹھے کر رہے ہیں۔ لیکن ان کی تجاویز نئی نہیں ہیں۔ مثلاً، وہ تجویز کرتے ہیں کہ خاموش وقت الگ رکھا جائے جس میں جاگنگ کی جائے یا شاور لیا جائے۔ سیر کرنا اچھا ہے لیکن اس وقت موبائل فون کو گھر پر رکھا جائے۔ اور یہ کام کسی مصروف شہری علاقے میں کرنے کا فائدہ نہیں جہاں پر رش میں چوکس رہنا ہوتا ہو۔
یا اٹھنےکے بعد چند منٹ بستر میں ہی لیٹنا جس میں اس دن کی فکریں نہ ہوں بھی ڈیفالٹ نیٹورک کو اپنا کام کرنے دیتا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اور اگلی بار، جب آپ کھڑکی سے باہر کے منظر کو تک رہے ہیں تو یاد رکھیں کہ آپ وقت ضائع نہیں کر رہے، بلکہ اپنی تخلیقی صلاحیت کو اپنا جادو دکھانے کا موقع دیکھ رہے ہیں۔
اور اگر آپ ایسا نہیں کر رہے تو کچھ تھوڑا سا وقت اس کیلئے بھی۔۔۔
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...