دماغ کھوپڑی کے درمیان میں قید ہے۔ زندہ دماغ ہماری زندگی کا کلیدی حصہ ہے لیکن جب یہ حرکت میں ہو تو اس کو سٹڈی کیسے کیا جائے؟
اس سے پہلے کسی نے اس مسئلے کی طرف توجہ نہیں دی تھی لیکن برگر کے پاس ایک اچھوتا خیال آیا۔ انہوں نے ریزن دی کہ میٹابولزم کو آکسیجن درکار ہے۔ اور آکسیجن کیلئے خون کا بہاؤ۔ اگر خون کے بہاؤ کی پیمائش کی جا سکے تو پھر دماغ کی ایکٹیویٹی کا بھی پتا لگایا جا سکے گا۔
1990 کی دہائی میں نیوروسائنس میں انقلاب لانے والی ٹیکنالوجی fMRI اسی اصول پر کام کرتے ہیں۔ تاہم اس کیلئے سپرکنڈکٹنگ مقناطیس، طاقتور کمپیوٹر اور کوانٹم تھیوری کی بنیاد پر بنا ڈیزائن درکار ہے۔
برگر کے وقت میں دستیاب ٹیکنالوجی ان کے اصول سے ایک سو سال پیچھے تھی۔ انہیں اپنے وقت کے دستیاب آلات سے کام کرنا تھا۔ دماغ میں خون کے بہاؤ کا مشاہدہ کیسے کیا جاتا؟
۔۔۔۔۔۔۔۔
اس کا جواب دل دہلا دینے والا لگتا ہے لیکن برگر خوش قسمت تھے۔ جس کلینک میں وہ کام کر رہے تھے، وہاں پر ایسے مریض بھی آتے رہتے تھے جنہیں ٹیومر ہو یا پھر گھوڑے کے حادثے کی وجہ سے سر میں چوٹ آئی ہو۔ ایک شخص کا فرش دوسرے کی چھت ہو سکتا ہے اور یہ کھوپڑی کھولنے کے یہ آپریشن ان کیلئے دماغ کی کھڑکی تھے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
برگر کا پہلا تجربہ تئیس سالہ نوجوان پر تھا جس کے سر پر گولی لگنے سے آٹھ سینٹی میٹر کا شگافْ پڑ گیا تھا۔ اگرچہ ذہن ٹھیک رہا تھا لیکن وقتاً فوقتاً دورے پڑتے تھے۔ برگر نے اسے موقع سمجھا۔ ربڑ کی ایک چھوٹی سی تھیلی بنائی اور پانی بھر کر اس سوراخ سے سر میں داخل کر دیا۔ اس کو ایک آلے سے جوڑ دیا جو کہ اس کے حجم میں تبدیلی کا ریکارڈ رکھتا۔ جب تھیلی کے نیچے والے حصے میں خون کا بہاؤ ہوتا تو اس جگہ پر دماغ تھوڑا سا پھیل جاتا اور اسے دبا دیتا۔
برگر نے اس شخص کو ریاضی کے سادہ ذہنی سوال حل کرنے کو کہا، تصورات بنانے کا کہا، توجہ کسی جگہ مرکوز کرنے کا کہا۔ اس دوران اس کا مشاہدہ کرتے رہے۔ انہوں نے یہ بھی نوٹ کیا کہ یہ یہ بہاؤ اضطراری افعال سے کس طرح تبدیل ہوتا ہے۔ اچانک پیچھے اونچی آواز سے چونکا دینے سے کیا فرق پڑتا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
برگر کئی سالوں تک مریضوں پر تجربات کرتے رہے۔ (اس وقت ایتھکس کی پابندیاں زیادہ کڑی نہ تھیں)۔ ٹیکنیکل مسائل رہے لیکن 1910 میں انہوں نے ان پر پہلی کتاب لکھی جس کا عنوان “دماغ کے درجہ حرارت کی تفتیش” تھا۔ اس میں انہوں نے کہا کہ دماغ کی کیمیکل انرجی حرارت، کام اور برقی توانائی میں تبدیل ہوتی ہے۔ لیکن ان کے نتائج اور ڈیٹا کمزور تھے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اگلے برسوں میں برگر زیادہ نڈر ہوتے گئے۔ انہوں نے مریض کے دماغ کا فنکشن جاننے کیلئے ان کے دماغ میں الیکٹروڈ ڈالنا شروع کر دئے جس سے برقی رو دی جا سکتی تھی۔ ان کا منصوبہ تھا کہ دماغ کے جغرافیے کا تعلق ذہنی تجربات سے معلوم کیا جائے۔ وہ ایسا ایک تجربہ 1924 میں سترہ سالہ کالج سٹوڈنٹ پر کر رہے تھے جب انہیں ایک خیال کوندا۔ کیوں نہ اسے الٹا دیا جائے؟ دماغ کو کرنٹ دینے کے بجائے ایسا کیوں نہ کیا جائے کہ یہ پیمائش کی جائے کہ دماغ سے کرنٹ کی پیمائش کی جائے؟ اور اس سیٹ اپ سے وہ اس قابل ہو گئے کہ دماغ کی اپنی بجلی کی سٹڈی کر سکیں۔
اور یہ برگر کیلئے کامیابی کی کنجی تھی۔ کیونکہ اگلے پانچ سال تک انہوں نے یہ سیکھا کہ کھوپڑی کے باہر سے دماغ کے کرنٹ کی پیمائش کیسے کی جا سکتی ہے۔ اور ان تجربات میں رضاکاروں کا ملنا بھی آسان تھا۔ اس آلے سے انہوں نے ہزاروں پیمائشیں کیں جن میں اپنے بیٹے پر کئے گئے تجربات بھی تھے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
برگر نے اپنے آلے کا نام الیکٹرو انسیفیلو گراف رکھا۔ اسے EEG کہا جاتا ہے۔ 1929 میں 56 سال کی عمر میں انہوں نے اس تحقیق پر پہلا پیپر “انسان کی دماغ کی بجلی کے گراف” کے عنوان سے شائع کیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
برگر کا ای ای جی بیسویں صدی کی اہم ترین ایجادات میں سے ہے۔ اس نے دماغ تک ایک کھڑکی کھول دی۔ اور اس سے نیوروسائیکیٹری کا شعبہ باقاعدہ سائنس بن گیا۔
آج سائنسدان ای ای جی کو کئی طرح کے ذہنی پراسس کی سٹڈی کے لئے استعمال کرتے ہیں۔
برگر نے اپنے اس نئے آلے کو استعمال کرتے ہوئے دکھایا کہ جب انسان کا ذہن بالکل خالی ہو اور وہ شعوری طور پر کچھ بھی نہ سوچ رہا ہو، تب بھی یہ چاق و چوبند ہوتا ہے اور اس میں برقی ایکٹیویٹی جاری ہوتی ہے۔
اور اس سے زیادہ غیرمتوقع بات یہ تھی کہ ای ای جی پیمائش بتاتی تھی کہ اگر رضاکار کسی چیز کی طرف توجہ دیتا تھا یا اس کی فراغت ختم ہوتی تھی تو یہ ایکٹیویٹی کم ہو جاتی تھی!!
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
برگر کی یہ دریافتیں اپنے وقت کی روایتی دانائی کے متضاد تھیں۔ اس وقت خیال یہ تھا کہ دماغ صرف اس وقت متحرک ہو گا جب یہ کسی چیز کی طرف توجہ دے رہا ہے۔
برگر نے کوشش کی کہ اپنی نئی دریافت کی اہمیت کے بارے میں لوگوں کو بتایا جائے لیکن انہیں اس کیلئے سامعین نہیں ملے۔
اس وقت کے سائنسدانوں کو یہ علم تو تھا کہ سانس لینے یا دل کی دھڑکن وغیرہ کیلئے دماغ میں کچھ ایکٹیویٹی ہو گی لیکن ان کا خیال یہ تھا کہ برگر کی ای ای جی جس چیز کو سن رہی ہے، وہ فقط رینڈم شور ہے۔
ان سائنسدانوں کا یہ نقطہ نظر غیرمعقول نہیں تھا۔ لیکن برگر جس سگنل کو سن رہے تھے، یہ رینڈم نہیں تھا۔
جہاں پر سائنسی پیراڈائم کو برقرار رکھنا بہت مفید ہے، وہاں پر کبھی کبھار یہ بڑی ترقی کی راہ میں آڑے بھی آتی ہے۔ یہ عام کہانی ہے۔ اور یہاں پر یہی ہوا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
برگر کا ای ای جی پر کیا گیا کام 1930 کی دہائی کے آخر تک ایک بڑا شعبہ بن چکا تھا، لیکن کسی نے آرام کی حالت میں دماغ کی سٹڈی پر توجہ نہیں دی تھی۔ 30 ستمبر 1938 کو برگر کو اچانک فون آیا اور انہیں بتایا گیا کہ انہیں ملازمت سے برخواست کیا جا رہا ہے اور ان کی لیبارٹری بند کی جا رہی ہے۔ ان کی سائنس کو نازی انتظامیہ کی منظوری حاصل نہیں۔
مئی 1941 میں دوسری جنگِ عظیم زوروں پر تھی۔ ان کا کیرئیر ختم ہو چکا تھا۔ ای ای جی پر ہونے والی تحقیق اس سمت میں نہیں جا رہی تھی جو ان کا خیال تھا۔ وہ نظرانداز کر دئے گئے تھے۔ اس وقت برگر نے اپنی ڈائری میں لکھا۔
“میری راتیں کروٹیں بدلتے گزرتی ہیں۔ اس سوال میں کہ میں نے کیا غلط کیا۔ میں کام نہیں کر پاتا، پڑھ نہیں سکتا۔ لیکن خود کو ایسا کرنے پر مجبور کرنا چاہتا ہوں”۔
برگر نے اپنا کیرئیر ایک سوال کی تلاش میں شروع کیا تھا۔ اور وہ اس میں ناکام رہے تھے۔ انہوں نے سائنس میں بڑا اہم کام کیا تھا۔ انہوں نے دماغ کے برقی سگنلز کا پہلی بار کھوپڑی سے باہر مشاہدہ کرنے کا طریقہ نکالا تھا۔ اور انہوں نے فارغ دماغ کی برقی ایکٹیوٹی کی دریافت کی تھی۔
وہ اس سے آگے نہیں جا سکتے تھے اور نہ ہی اپنے کام کی اہمیت کیلئے کسی کو قائل کر سکتے تھے۔
ان کے شائع ہونے والے آخری پیپر کا آخری پیراگراف تھا کہ
“میں آپ کی توجہ اپنے کام کے ایک خاص نکتے کی طرف دلانا چاہوں گا۔ جب ذہنی کام کیا جاتا ہے یا شعوری ایکٹیویٹی کی جاتی ہے تو یہ اپنا اظہار کئے طریقہ سے کرتی ہے۔ اور اس دوران دماغ کے سگنلز میں ہونے والی کمی نمایاں ہے”۔
برگر کے الفاظ کسی تک نہیں پہنچے۔ اپنے وقت سے آگے ہونے کی یہ قیمت تھی۔ 30 مئی 1941 کو ہانس برگر نے اپنی جان لے لی۔ ان کی دیوار پر ان کے نانا کی لکھی نظم لگی تھی۔
“ہر شخص کے سامنے ایک سوال ہے
کہ وہ زندگی میں حاصل کیا کرنا چاہتا ہے
اور جب تک وہ اسے پا نہیں لیتا
وہ چین و سکون بھی نہیں پا سکتا”
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...