اپنی کلاسیکل کتاب “سائنسی انقلابوں کی ساخت” میں تھامس کوہن سائنس کے paradigm shifts کے بارے میں لکھتے ہیں۔ یہ سائنسی سوچ میں ہونے والا آہستہ آہستہ اضافہ نہیں بلکہ بڑی تبدیلیاں ہیں۔ یہ سوچ کے فریم ورک میں ہونے والی تبدیلی ہے۔ ان مشترک تصورات اور مفروضات کی جن کی بنیاد پر سائنس کی جاتی ہے۔ موجودہ فریم ورک میں رہتے ہوئے مسائل کو حل کرنا اور نتائج تک پہنچنا تجزیاتی اور لچکدار سوچ کے ملاپ کا تقاضا کرتا ہے۔ لیکن نئے فریم ورک کے تصور تک لچکدار سوچ کے ذریعے ہی پہنچا جا سکتا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پیراڈائم شفٹ بہت سے کامیاب لوگوں کو پیچھے چھوڑ دیتی ہے۔ ان لوگوں کو جن کی سوچ کا جمود پرانے فریم ورک سے نہیں نکل سکتا۔ خواہ اس کے خلاف کتنے ہی شواہد کیوں نہ آ جائیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تھامس کوہن تو یہ سب سائنس کی تاریخ کے بارے میں لکھتے ہیں لیکن یہ ہماری روزمرہ زندگی کے ساتھ بھی ہے۔ ہم اپنی زندگی میں مختلف معاملات کے بارے میں اپنا نقطہ نظر بنا لیتے ہیں۔ یہ ہمارا فریم ورک ہوتا ہے جس کے مطابق ہم اپنے خیالات کو ڈھالتے رہتے ہیں۔ ایسا ضرور ہے کہ کچھ لوگوں کے لئے ان کے پیراڈائم کبھی تبدیل نہیں ہوتے لیکن بہت سے لوگ زندگی میں ایس کوہینین چھلانگوں کا تجربہ کرتے ہیں۔ اور جو لوگ ذاتی زندگی میں پیراڈائم تبدیل کرنے سے گھبراتے نہیں ہیں، انہیں عام طور پر دوسروں سے سبقت حاصل ہوتی ہے کیونکہ وہ بدلتی دنیا سے جلد مسابقت بنا سکتے ہیں۔ آج کی دنیا میں یہ صلاحیت خاص طور پر اہم ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ذاتی زندگی میں ذہنی لچک کی مشق کی جا سکتی ہے۔ ملاڈینو کہتے ہیں کہ “میں کئی بار پرچیوں پر اپنے گہرے ترین یقین کی فہرست بناتا ہوں۔ انہیں تہہ کر کے کسی ایک کو اٹھاتا ہوں اور تصور کرتا ہوں کہ اگر کوئی بتائے کہ یہ غلط ہے تو کیا ہو گا؟ اس دوران میں ایک لمحے کیلئے بھی ایسا نہیں سمجھتا کہ یہ یقین غلط ہے۔ نکتہ یہ نہیں۔ نکتہ یہ ہے کہ میں خود کو چیلنج کر رہا ہوں۔
میرا یہ یقین کیوں ہے؟ کیا مجھ سے اختلاف کرنے والے بھی ہیں؟ کیا میں ان کی رائے کا احترام کرتا ہوں؟ آخر وجہ کیا ہے کہ ان کا نتیجہ مجھ سے مختلف ہے؟ میں پرانا وقت یاد کرتا ہوں جب مجھے کسی چیز کے بارے میں اعتماد تھا کہ میں درست ہوں لیکن میں غلط نکلا۔ میری اس مشق سے مجھے جو بصیرت ملی ہے، وہ یہ کہ میں اس بات کو سمجھتا ہوں کہ کسی نئی سوچ کے لئے ذہن کو ایڈجسٹ کرنا کس قدر دشوار ہے۔ یہ اتنا آسان بالکل بھی نہیں جتنا نظر آتا ہے۔ اور اگر میرے لئے نہیں تو پھر مجھ سے مختلف رائے رکھنے والے کیلئے بھی نہیں”۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہم اپنی پیراڈائم کو بنیاد بنا کر ایشوز پر جلد ہی ذہن بنا لیتے ہیں۔ جب لوگ ہماری رائے کو چیلنج کرتے ہیں تو ہم اپنا دفاع کرتے ہیں۔ اور ہم جس بھی پوزیشن پر ہوں، جب بحث کرنے پر اتر آئیں تو پھر اپنی پوزیشن پر زیادہ پکے ہو جاتے ہیں۔ اور پھر مخالف رائے رکھنے والوں کے لئے گالی پر بھی اتر سکتے ہیں۔ ہم اپنے ہم خیالوں میں رہ کر اپنے خیالات پر مزید سے مزید مضبوط ہوتے ہیں۔ وہ ذہنی لچک جو کہ ہمیں اپنی پوزیشن پر نظرثانی کرنے میں مدد کر سکے، نہ صرف سائنس میں بلکہ سماجی گفتگو اور ذاتی زندگی کیلئے بھی انتہائی اہم ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اگرچہ اس کا استعمال ہمیشہ نہیں کیا جاتا لیکن خوش قسمتی سے، ہم سب ایسا کرنے کی صلاحیت ضرور رکھتے ہیں۔
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...