دوسری طرف، ایور کی کہانی ہمارے اپنے لئے بھی خبردار رہنے کا سبق ہے۔
اگر ہم پر انخاب کرنے کی ڈیمانڈ ہو تو یہ ہمارے لئے تھکا دینے والا بوجھ ہے۔ اور آج کی دنیا میں choice overload ایک مسئلہ ہے جو ہمارے ذہنی وسائل استعمال کرتا ہے۔ سٹریس کا باعث بنتا ہے اور ضبطِ نفس کو کمزور کرتا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ولیم جیمز نے ایک صدی پہلے لکھا تھا۔
“اس سے زیادہ قابلِ رحم شخص کوئی نہیں جسے سگار جلاتے وقت، پیالی بھرتے وقت، بستر پر سوتے اور اٹھتے وقت اور ہر چھوٹے کام سے پہلے غور و فکر کرنا پڑے”۔
۔۔۔۔۔۔۔
آج ہمیں سپرسٹور میں بسکٹ، لوشن، لپ سٹک، شربت سمیت سینکڑوں چیزوں کے سینکڑوں برانڈ ملتے ہیں۔ ملک پیک لیا جائے یا اولپرز؟
خوش قسمتی سے اس کا آسان علاج موجود ہے۔ پہلی قابلِ قبول آپشن کو قبول کر لیا جائے۔
ماہرینِ نفسیات اس طریقے والوں کو satisficers کہتے ہیں۔ اس کا متضاد maximizer ہے۔ اس میں بہترین کی خواہش اور طلب ہوتی ہے۔
یہ ذاتی زندگی کی نفسیات اور اکانومی میں ایک طاقتور تصور ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہماری زندگی میں ہمارے پاس ایک اور حربہ ہے جو کہ ہماری عادات ہیں۔ یہ ہمارے لئے بہت اہم کردار ادا کرتی ہیں۔ (اس سے زیادہ جتنا ہم سمجھتے ہیں)۔ ہم اپنی عادات پر غور کر سکتے ہیں۔ انہیں تبدیل کر سکتے ہیں لیکن ہماری زندگی کو یہ کنٹرول کرتی ہیں۔
ان کا ایک بہت بڑا فائدہ یہ ہے کہ یہ ہمیں choice overload کے مسئلے سے محفوظ رکھتی ہیں۔ روٹین کی زندگی میں ہمیں ذہن پر زور نہیں دینا پڑتا کہ کس صورتحال میں کیا فیصلہ لیا جائے۔ ہمارا اپنا ڈیزائن یہ ہے کہ ہماری زندگی کے بیشتر انتخابات کا کنٹرول ان کے حوالے کر سکتے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کونسی فلم دیکھیں؟ ٹی وی پر کونسا چینل لگائیں؟ کس رنگ کے کپڑے پہنیں؟ کیرئیر میں کیا فیصلہ کریں؟ کس سے شادی کریں؟
ہم سب اچھے انتخاب کرنا چاہتے ہیں۔ ان میں سے کئی انتخاب دوسروں کے مقابلے میں زیادہ اہم ہیں۔
اور یہاں پر تناقض یہ ہے کہ بہت زیادہ تجزیہ بہتر فیصلے پر نہیں لے کر جاتا۔ اس بات کو ذہن سے نکال دینا کہ ہمیں بہترین انتخاب ہی کرنا ہے، نہ صرف ہماری ذہنی توانائی بچاتا ہے بلکہ اپنے انتخاب کے بارے میں زیادہ اطمینان بھی دیتا ہے۔
زیادہ تر معاملات میں بہترین کی خواہش چھوڑ کراچھی آپشن قبول کر لینا۔
جبکہ غیراہم باتوں میں انتخاب نہ کرنے کا انتخاب ۔۔۔ اس کے بجائے اپنے عادات پر بھروسہ کر لینا خوش و خرم اور کم سٹریس والی زندگی گزارنے کے راز ہیں۔
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...