سکرپٹ والی سوچ کے علاوہ ایک طریقہ تجزیاتی سوچ کا ہے۔ ہم کئی بار اس کی تعریف کرتے ہیں کہ یہ معروضی طریقہ ہے جو جذبات کی ملاوٹ سے آزاد ہوتا ہے اور اس لئے درست سمت میں لے کر جاتا ہے۔
جذباتی حصے کی غیرموجودگی کا مطلب یہ ہے کہ تجزیاتی سوچ لچکدار سوچ کے مقابلے میں سادہ ہے اور اس کا تجزیہ کرنا بھی نسبتاً آسان ہے۔
سن 1851 میں اس پر آئرلینڈ میں جارج بُول نے کہا،
“کیا ہمارے ذہنی آلات کے عمومی قوانین موجود پائے جاتے ہیں؟ میرا اس پر جواب ہے کہ ہاں ایسا ممکن ہے۔ اور ریزن کے قوانین ریاضی کے ہیں۔ یہاں پر ریاضی کا مطلب اعداد اور مقدار نہیں۔ اس سے زیادہ وسیع ہے۔ اور میرا خیال ہے کہ ریزننگ کو علامتی زبان تک لایا جا سکتا ہے”۔
تین سال بعد انہوں نے اس پر کتاب لکھی جس کا نام “سوچ کے قوانین” تھا۔
بُول کا خیال تھا کہ منطقی ریزننگ کو الجبرا کی طرز کے اصولوں تک لایا جا سکتا ہے۔ وہ اس میں مکمل طور پر کامیاب نہیں ہوئے لیکن انہوں نے سادہ سوچ اور فقروں کو مساوات میں لکھنے کا طریقہ بنا لیا جن کو آپس میں جوڑا جا سکے اور اس پر آپریٹ کیا جا سکے۔ ویسے ہی جیسے ضرب یا جمع کی جاتی ہے۔
بول کی وفات کے سو سال بعد ان کی کامی کی اہمیت بڑھ گئی۔ اس کی وجہ ڈیجیٹل کمپیوٹر تھے۔ انہیں کسی وقت میں “سوچنے والی مشینیں” کہا جاتا تھا۔
آج کے کمپیوٹر بول کے الجبرا کی سیلیکون کی شکل میں عملی شکل ہیں۔ اس کے سرکٹ کے عناصر gate کہلاتے ہیں جو کہ فی سیکنڈ اربوں منطقی آپریشن کر سکتے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جس وقت بول سوچ کی ریاضی بنا رہے تھے، اس وقت ایک اور سائنسدان چارلس بیبج ایسی مشین بنا رہے تھے جو کہ سوچ سکے۔ بیبج کی مشین ہزاروں سلینڈر سے ملکر بنائی گئی تھی جن کو بڑی نفاست سے گئیرز کی مدد سے جوڑا گیا تھا۔ یہ ان کا Analytical engine تھا جس پر انہوں نے 1830 کی دہائی کے آخر میں کام شروع کیا۔ لیکن اس کی پیچیدگی اور خرچ بڑا تھا۔ وہ اس پر کام کرتے رہے۔ 1871 میں ان کا انتقال ہوا۔ وہ اسے مکمل نہیں کر سکے تھے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بیبج نے ایسے انجن کا تصور بنایا تھا جس کے چار حصے ہوں۔
اِن پُٹ۔ یہ کارڈز کے ذریعے جائے۔ اس میں ڈیٹا بھی ہو اور یہ ہدایات بھی کہ ڈیٹا کے ساتھ کیا کئے جانا ہے۔
سٹور۔ اسے بیبج مشین کی یادداشت کہتے تھے۔ یہ کمپیوٹر کی ہارڈ ڈسک کی طرح ہے۔
مِل۔ یہ وہ انجن تھا جہاں پر اندر آنے والی ہدایات کو پراسس کیا جاتا تھا۔
آؤٹ پٹ۔ یہ آلہ نتائج دکھانے کیلئے تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بیبج کی مشین میں جدید ڈیجیٹل کمپیوٹر کے بڑے اصول موجود تھے۔ اور یہ ہمارے ذہن کو سطحی طور پر سمجھنے کا فریم ورک بھی دیتی تھی۔
ہمارے پاس بھی اِن پُٹ ہے جو حسیات سے آتی ہے۔ پراسسنگ یونٹ (سیریبرل کورٹیکس) ہے جو اس ڈیٹا پر آپریٹ کرتا ہے۔ مختصر مدت اور طویل مدت یادداشت کا ذخیرہ ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بیبج کی دوست لیڈی ایڈا لَولیس تھیں۔ انہیں یہ مشین بنانے کی کوشش بیبج سے بھی زیادہ پسند تھی۔ بیبج اس مشین کو شطرنج کھیلتا دیکھتے تھے جبکہ لولیس کا خیال تھا کہ اس سے مشینی ذہانت بنائی جا سکتی ہے۔ ایسا آلہ بن سکتا ہے جو موسیقی اور سائنس سمیت ہر قسم کی پیچیدگی والا کام سرانجام دے سکے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔
اس وقت میں ذہن کے بارے میں ہماری سمجھ بھی محدود تھی۔ شطرنج کا کھیل کھیلنا اور اوریجنل آرٹ کی تخلیق کرنا ایک ہی جتنے دشوار سمجھے جاتے تھے۔ لیکن آج ہم جانتے ہیں کہ ان دونوں میں زمین آسمان کا فرق ہے۔
شطرنج کا کام منطق اور رولز کے سیدھے اطلاق سے ہو جاتا ہے۔ یہ بُول کے سوچ کے قوانین ہیں۔ لیکن دوسرے کے لئے یہ طریقہ کام نہیں کرتا۔
شطرنج کو الگورتھم تک reduce کیا جا سکتا ہے لیکن اگر آرٹ تخلیق کرنے کے ساتھ ایسا کیا جائے تو ناکامی ہوتی ہے۔ روایتی کمپیوٹر پہلا کام کسی بھی انسان سے کہیں بہتر کر لیتے ہیں لیکن دوسرا والا نہیں۔
وجہ کیا ہے؟ یہ سوچ کے طریقے کا فرق ہے۔ تجزیاتی سوچ اور لچکدار سوچ کے درمیان کا بڑا خلا ہے۔
تجزیاتی سوچ کو Age of reason کا دیوتا سمجھا جاتا رہا ہے لیکن انسانی سوچ کا کمال یہ والا نہیں۔
منطقی سوچ آپ یہ یہ بتا سکتی ہے کہ گھر سے دفتر تک پہنچنے کیلئے گاڑی کو کس راستے سے لے جایا جائے۔ (اور گوگل میپ یہ کام آپ سے بہتر کر لے گا)۔ لیکن گاڑی کی ایجاد؟ یہ لچکدار سوچ کا نتیجہ ہے۔
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...