ماہرِ نفسیات ایلن لینگر نے اپنے دو ساتھیوں کے ساتھ ملکر 1970 کی دہائی کے آخر میں ایک اہم پیپر لکھا۔ “ہمارے رویے کا کتنا حصہ ہماری مکمل آگاہی کے بغیر ہے؟” ان کا جواب تھا، “بہت سا”۔
ہم سب جانتے ہیں کہ کئی بار ہم بے دھیانی میں آٹوپائلٹ پر کام کرتے ہیں لیکن لینگر کے پیپر میں جو کہا گیا تھا وہ یہ کہ ہمارے پیچیدہ سماجی معاملات میں بھی یہ عام ہے۔ جب ہم عام قسم کی صورتحال میں ہوتے ہیں تو ہمارا بہت سا رویہ mindless ہوتا ہے۔ یہ پروگرام شدہ پیٹرن ہوتے ہیں جس میں اس وقت کی صورتحال کے حساب سے کچھ خاص ترمیم نہیں کی جاتی۔
ان کا ایک تجربہ فوٹوکاپی کی مشین پر تھا۔ کوئی فوٹوکاپی کرنے آتا تو محقق اس کے ساتھ پہنچ جاتا اور کہتا کہ “معذرت۔ میرے پاس پانچ صفحات ہیں۔ کیا میں مشین استعمال کر لوں؟”۔ 60 فیصد لوگوں نے اسے اپنے سے پہلے مشین استعمال کرنے کی اجازت دے دی۔
ایک اور گروپ کے ساتھ اس نے سوال کیا کہ “معذرت۔ میرے پاس پانچ صفحات ہیں۔ کیا میں مشین استعمال کر لوں کیونکہ میں جلدی میں ہوں؟”۔ اس صورت میں 94 فیصد نے اجازت دے دی۔
بظاہر ایسا لگتا ہے کہ یہ سوچا سمجھا رویہ ہے۔ چونکہ وجہ بتائی گئی تھی اس لئے پہلی درخواست کے مقابلے میں ردِعمل مختلف رہا۔ جلدی میں ہونا ایک وضاحت پیش کی گئی تھی جس کو قبول کر لیا گیا۔
لیکن محقق نے پھر اس کیلئے تیسرا طریقہ استعمال کیا۔ “معذرت۔ میرے پاس پانچ صفحات ہیں۔ کیا میں مشین استعمال کر لوں کیونکہ مجھے ان کی کاپی کرنی ہے؟”
اس جگہ پر فقرے کا سٹرکچر دوسرے سوال والا تھا۔ یعنی درخواست کی گئی تھی اور ساتھ وضاحت پیش کی گئی تھی۔ لیکن اس کا مواد مختلف تھا۔ وضاحت خالی تھی۔ “کیونکہ مجھے ان کی کاپی کرنی ہے” پچھلی انفارمیشن میں کچھ بھی اضافہ نہیں کرتا۔
۔۔۔۔۔۔۔
اگر یہاں پر لوگ واقعی سوچ سمجھ کر اور درخواست کے مندرجات پر غور کر کے ردِ عمل دے رہے ہوتے تو پھر اس کا نتیجہ وہی ہونا چاہیے جو کہ پہلی درخواست کا تھا یعنی ساٹھ فیصد کے قریب۔ لیکن اگر سکرپٹ چل رہا ہوتا ہے اگر وجہ بتائی گئی ہے (خواہ غیرمتعلقہ ہی ہے) تو پھر درخواست مان لی جائے تو پھر یہ دوسری درخواست جیسا ہوتا۔
یہاں پر کامیابی 93 فیصد رہی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ اور دوسری تحقیقات بتاتی ہیں کہ اگرچہ آپ کا خیال ہو گا کہ عام زندگی میں سماجی معاملات میں آپ شاذ ہی کبھی سکرپٹ پر چلتے ہیں لیکن آپ کا اپنے بارے میں یہ خیال درست نہیں ہے۔
لیبارٹری سٹڈیز سے باہر کلینکل نفسیات میں بھی یہ عام ملتا ہے۔ مثال کے طور پر میاں بیوی کے تعلقات میں Demand / withdraw کا خطرناک سائیکل ایسا ہے۔ ایک شریک دوسرے کے رویے میں تبدیلی چاہتا ہے۔ یہ demand ہے۔ دوسرا خودکار طریقہ سے پیچھے ہٹ جاتا ہے تا کہ اس پر بات نہ کرنی پڑے۔ یہ withdraw ہے۔ اس سے ڈیمانڈ کی شدت میں مزید اضافہ ہوتا ہے اور ساتھ ہی پیچھے ہٹ جانے میں بھی۔
اسی طرح سے ایک اور سائیکل ہے جس میں کسی نے کسی دوسرے کے کمزور نقطے کو جانے انجانے میں چھیڑ دیا۔ اس سے آنے والا ردِعمل آٹومیٹک ہے اور غصے والا ہے۔ اور یہ پہلے کے لئے ٹرگر بن گیا کیونکہ اس نے اس غصے کو mindless نہیں بلکہ سوچی سمجھی حرکت سمجھا۔ کیونکہ وہ خود بھی mindless ردِعمل دے رہا ہے۔ اس کا نتیجہ جلد بات کا بڑھ جانا ہے۔ اور اس کا نتیجہ جھگڑے، غصے اور بحث میں نکلتا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
زندگی میں اس قسم کے سائیکل توڑنے کیلئے خود آگاہ mindfulness کی تراکیب تجویز کرتے ہیں۔
ولیم جیمز اس کو “خود اپنی ذہنی نگرانی” کہتے ہیں جس میں اپنے احساسات، ادراک اور سوچ پر محنت سے غور کیا جائے۔ اس کیلئے بہت سی ذہنی مشقیں مل جائیں گی جو کہ اپنے پر مزید کنٹرول دے سکتی ہیں۔
ابھی کیلئے ہم ایسے سکرپٹ سے آگے سوچ کے دوسرے طریقوں کی طرف چلتے ہیں۔
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...