(مطبوعہ ’’اسباق‘‘ پونے، مہاراشٹرا)
خوبصورت کتابت و طباعت سے آراستہ میمونہ علی چوگلے کی یہ تازہ تصنیف نظر نواز ہے۔ میمونہ صاحبہ کی یہ کتاب ان کے اسلوب اور ادبی رویہ کی ایک واضح مثال ہے، جو عام خاکہ نگاروں اور تنقید نگاروں سے قدرے جداگانہ مزاج کی شاہد ہے۔ ان کی تحریر معیاری اور معتبر ہے، طرز بیان سادہ، سلیس، واضح اور راست ہے نہ تصنع، نہ بھاری بھرکم تراکیب اور مصطلحات، نہ بے جا لفظیات کی گھن گرج۔ بہ قول آتشؔ:
تکلف سے بری ہے حسنِ ذاتی
قبائے گل میں گل بوٹا کہاں ہے
۱۹۸۹ء کے اواخر میں کویت میں مقیم اہم شاعر، افسانہ نگار اور مترجم نورپرکار صاحب سے میری ملاقات ہوئی۔ انھوں نے بڑی خوش دلی سے کویت کے ادبی افق پر روشنی ڈالی اور یہاں موجود تقریباً تمام قابل ذکر ادیبوں اور شاعروں کا بالراست یا غائبانہ تعارف کروایا۔ بہت اچھا لگا۔ ان میں میمونہ صاحبہ کا ذکر انھوں نے خاص طور پر کیا تھا کہ اچھی نثر نگار بھی ہیں اور آزاد شاعری میں تجربے بھی کر رہی ہیں۔ بعد ازاں جب ان سے مزید واقفیت ہوئی تو وہ تعارف سے بھی بڑھ کر نکلیں۔ یہ ایک ایسی ادیبہ ہیں جو شبانہ روز ادبی مطالعہ، تحریر و تصنیف میں منہمک رہنے والی، ان تھک جستجو میں مشغول اور شہرت کی دوڑ سے بے نیاز رواں دواں ہیں۔ ان کا اپنا نثری انشا کا طرز بیان ہے جو ان کی تحریروں کی پہچان بھی ہے۔ فضولیات سے پرے، اہمال سے کوسوں دور، ڈھکوسلے سے بے زاریہ ادیبہ ادبی جولاں گاہ میں ارتقا کی منزلیں طے کر رہی ہے۔
گو ان کی تحریروں میں سے چند ہی میری نظر سے گزری ہیں لیکن ان کے سباق و سیاق سے ہر بار یہ احساس ہوا ہے کہ وہ موضوع کو مختصر طوالت کے مضامین کے ذریعہ کامیاب عکاسی کرنے کا فن جانتی ہیں۔ ان کی تحریریں منتخب شخصیت کے سوانحی کوائف، فن کی بین صفات کا اجمالی جائزہ، اشارتی طور پر فن کا تجزیہ، تحسین، عیب و ہنر، تبصرہ اور بے حد اخلاقی لب و لہجہ میں معیار کی جانب توجہ دہانی، یہ سب مختصراً اور خوبصورت طریقہ سے منجمد کر کے پیش کرتی ہیں۔ اس طرح موصوف سے اجمالی ملاقات ہو جاتی ہے۔
کامیاب شخصیت نگاری / خاکہ نگاری کے چند اہم بنیادی التزامات ہیں جن سے میمونہ صاحبہ بہ خوبی واقف ہیں۔ یہ فن اصل میں بیش پہلو تصویر کشی کی طرح ہے، جس میں ذات کی عکاسی مصوری سے قریب تر ہوتی ہے ایسی مصوری جس میں رنگ بھی بھرا جا سکے اور منظر کو حسبِ ضرورت روشن اور مدھم دونوں طور پر رکھا جا سکے۔
ہر فن کار ایک سماجی اکائی بھی ہوتا ہے جو دانش مندی اور عبقری صلاحیتوں کے سبب عوام سے مختلف اور نمایاں بھی ہے۔ اس فرد کی تخلیقی اور فن کارانہ انفرادیت کو ممیز کرنے میں اس کی ذہنی صلابت اور مشق سخن و ادب سے پیدا کردہ چابک دستی اور سماجی پس منظر سب کا کچھ نہ کچھ اثر ضرور ہوتا ہے۔ شخصیت کا جائزہ نگار تب ہی کامیاب ہوتا ہے جب اس کے مضمون سے ایسا لگے کہ ممدوح و موصوف سے آپ بالمشافہ ملاقات کر رہے ہیں اور اس کے بارے میں بہت کچھ جانتے ہیں۔ اس ضمن میں میمونہ کافی کامیاب رہی ہیں۔
اس کتاب کی مشمولات سے میمونہ کے ذوق ادب اور افق نگاہ کا اندازہ بھی ہوتا ہے۔ مضامین میں تین اہم گوشوں پر توازن اور ترتیب کے ساتھ نظر ڈالی گئی۔ اس طرح ادب عالیہ کے نمائندہ شعرا اور ادبا جیسے آل احمد سرور، علی سردار جعفری، عصمت چغتائی، مجتبیٰ حسین، امرتا پریتم، زاہدہ حنا اور گلزار جیسے اہم نام مضامین کے موصوف و موضوع ہیں۔ اس کے ساتھ انھوں نے کوکن کے ادیبوں اور کویت کے ہم عصروں کو بھی بڑی تخصیص کے ساتھ پیش کیا ہے۔ یعنی ان کی نظر انتخاب ان پر پڑی جن سے انھیں ربط دلی بھی ہے، علمی تعلق بھی! اس سے ان کے کینوس کی وسعت کا بھی اندازہ ہوتا ہے۔
ان مضامین کی بنیادی خصوصیت تعارف و تذکرہ کی ہے، ان میں تنقید و تحلیل سے حتی الامکان احتراز کیا گیا ہے اور یہ مضامین صلح کل قسم کی فکر کے تحت تخلیق کیے گئے ہیں، اس لیے اختلاف بحث و تمحیص اور اعتراض و تنقیص سے پہلو تہی کی گئی ہے۔ مقصد تعمیری سوچ کے تحت ہر قابل ذکر فن کار کو اس کے واضح تاثر کی بنا پر بیان میں لایا گیا ہے تاکہ قاری ادبی میدان میں اس کے مقام تک خود پہنچ کر بین طور پر تاثر لے سکیں۔ اس کے باوجود ان مضامین میں ایک قسم کی دروں بینی بھی ہے، راست عکاسی بھی اور فن کار کی تخلیق کو منشرح کرنے کی کوشش بھی۔ مثال کے طور پر میرے بارے میں ان کا مضمون جو ماہانہ ’’اسباق‘‘ کے خاص نمبر میں شریک تھا، بہت خوبصورتی سے میری ذات، کوائف، بنیادی نظریات، زبان و بیان کی خصوصیات کو دائرہ تحریر میں لاتا ہے، میری شاعری کے بدلتے رنگوں کی طرف بھی انھوں نے خوب اشارہ کیا ہے۔ یہ کئی ارباب ادب کو بے حد پسند آیا اور اس کے لیے میں ان کا شکر گزار ہوں۔
کویت کی سرزمین میں اردو ادب جس طرح پل رہا ہے اور نمو پا رہا ہے اس سے یہ احساس قوی ہوتا جا رہا ہے کہ اس طرح کی اردو کی نئی بستیوں میں معیار، تنوع اور تقریبات کی جہتوں میں ہماری زبان کامیابی کے ساتھ فروغ پارہی ہے۔
میمونہ علی چوگلے صاحبہ کی خوش نصیبی ہے کہ انھیں ہم مزاج اور موافق ماحول ملا ہے۔ ان کے شوہر جناب علی چوگلے صاحب ایک بے حد نفیس اور معتبر ہم سفر ہیں ان کی دختر بھی ہم ذوق ہیں اسی وجہ سے میمونہ صاحبہ نے زبان و ادب میں یہ تحریری اضافے کیے ہیں۔
میمونہ کی نثر سلجھی ہوئی، سہل پیرایہ پر اور واضح ہوا کرتی ہے جس میں مروجہ لفظیات، تراکیب اور مطلحات کا استعمال حسب ضرورت کامیابی کے ساتھ ترسیل کے عمل کو سر انجام دیتا ہے۔ ان کی نثر کی کچھ مثالیں پیش ہیں:
’’سردار جعفری کی شاعری اور شخصیت دونوں کی جڑیں ہندوستانی زمین میں گڑی ہوئی تھیں اور اس کی شاخیں بین الاقوامی ماحول میں سانس لے رہی تھیں۔ ان کے مزاج میں پرانی اور نئی تہذیبوں اور روایتوں کا خوبصورت امتزاج پایا جاتا ہے۔ انھوں نے بزرگوں کے اثرات بڑی حد تک قبول کیے لیکن اپنی شاعری کو ان کی بازگشت نہیں بننے دیا بلکہ جن کی شاعری میں ان کا اپنا لب و لہجہ، غنائیت و دل سوزی اور دردمندی نمایاں طور پر نظر آتی ہے۔ انھوں نے زیادہ تر حالات حاضرہ اور زندگی میں روز بہ روز ابھرنے والے نت نئے مسائل کو ہی اپنی شاعری کا موضوع بنایا۔‘‘
…
’’یعقوب راہی کی اکثر نظمیں مختصر ہیں اور غزلیں بھی، لیکن جذبے کی شدت ان میں نمایاں ہے۔ ان میں انقلابی جذبات کا اظہار بڑی خوبی سے کیا گیا ہے۔ اپنے ہم عصروں میں ان کی آواز نئی اور آہنگ نرالا ہے۔ ان کی شاعری موقع پرستی اور مصلحت کوشی سے انکار کرتی ہے۔ اسی لیے طرز احساس و اظہار ان کی شاعری میں اپنی ایک الگ شناخت بنا پایا ہے۔ ان کی نظموں میں علامتی انداز بیان کید ل کشی اور سچائی کی جھنکار ہے۔‘‘
اب آپ خود ہی دیکھیے کہ کس خوبی کے ساتھ ادیبہ نے ان شاعروں کے رویہ اور تخلیقی مزاج کی آئینہ داری کی ہے۔
میں میمونہ علی چوگلے صاحبہ کو اس معیاری کتاب کی اشاعت پر مبارک باد پیش کرتا ہوں۔ مجھے یقین ہے کہ یہ تحریریں اردو ادبی ماحول میں قبولیت عام حاصل کریں گی۔
٭٭٭