’’روشنی اے روشنی‘‘ ایک ایسا مجموعۂ کلام ہے جسے میں اکثر تبدیلیِ احساس کے لیے رات کے اُس پہر جب نیند اور تخلیق میں کشاکش ہو، بہ شوق پڑھتا ہوں، جو نسخہ میرے پاس ہے اُس کا سنہ اشاعت ۱۹۷۲ء ہے۔
شکیبؔ جلالی ان اہم شاعروں میں سے ہیں جو نئے لہجے اور نئے اسلوب کی ایجاد میں کامیاب ہوئے، نئی شاعری کے اولین، شاعروں میں شمار کیے جاتے ہیں۔ وہ ایک منفرد آواز بن کر ابھرے۔ ترقی پسندی سے جدے دیت کی طرف ہجرت کرتے ہوئے بالکل ایک نئی زمین پر آ پہنچے۔ ان کی غزل کو غزل کی تجدید حیات کی شہادتوں میں شمار کیا جانے لگا۔
ان کا ایک شعر تو بے حد مشہور ہوا:
آ کے پتھر تو مرے صحن میں دو چار گرے
جتنے اس پیڑ کے پھل تھے پس دیوار گرے
یہ لفظیات اُس دور کے لیے جب یہ شعر عام ہوئے، نئی اور نویلی تھیں، ادب کے اہلِ حکم کو چیں بہ جبیں کرنے کے لیے کافی تھیں۔
شکیب کا یہ مجموعہ مجھے اس لیے قیمتی ہے کہ اس میں ندرت کے ساتھ ساتھ ایسا لگتا ہے کہ میرا آپا مجھ سے نکل کر اشعار کی روح میں حل ہے، کچھ کرب ہیں، کچھ ناتمامیاں ہیں، کچھ زاویۂ نظر، واہ کیا بات ہے!
مجھے گرنا ہے تو میں اپنے ہی قدموں میں گروں
جس طرح سایۂ دیوار پہ دیوار گرے
وقت کی ڈور خدا جانے کہاں سے ٹوٹے
کس گھڑی سر پہ یہ لٹکی ہوئی تلوار گرے
یہ بات تو واضح ہے کہ شکیب کسی خاص طبقہ کے نمائندہ نہیں بلکہ ہم جیسے ہی تھے۔ ان کی الجھنیں، آرزوئیں اور خواہشات، ان کے رنج و محن اور وہ تمام اجزاء ترکیبی جن پر ایک پیکر کی شناخت کی تشکیل ہوتی ہے وہ تمام نقاط شکیب کے ہوں کہ آج کے کسی فن کار کے ہوں، ان کا ارتکاز مختلف سطحوں پر ہو لیکن بہ حالت اجمالی یکساں ہے۔ اس لیے کہ اظہار کی قوتوں کو انگیختہ کرنے کے لیے خلاق ذہن کے لیے ضروری ہے۔ اسی لیے شکیب کے کلام میں جو جداگانہ نوع کی بے ساختگی ہے ان کی منتخبہ تشبیہات علامات کی جانب رجوع کرتی ہیں:
غم الفت مرے چہرے سے عیاں کیوں نہ ہوا
آگ جب دل میں سلگتی تھی، دھواں کیوں نہ ہوا
یہ آگ تو ہر شائق کے سینے میں جلتی ہے۔ لیکن شکیب نے دھوئیں کی خواہش بڑے انوکھے انداز میں کی ہے۔ ویسے بھی اگر جذبات کا اظہار ضابطوں کی طرح واضح اور بلاواسطہ ہو تو فن کاری کی آنچ کہاں سے آئے۔ فن کار تو کرب کے اظہار کے لیے ان عنوانات کی تلاش میں ہے! جو نا آفریدہ ہیں۔
انسان جو کہ ایک مسافر بھی ہے۔ اس کی مسافرت قید مکان کے علاوہ کبھی زمان کے کوچہ میں ہے تو کبھی درون کے طویل غار میں تو کبھی فرار کی ٹوٹی ہوئی ویران منزل میں۔ زبان کے کوچہ میں وہ ہم دموں کے درمیان ایک تنہا رواں دواں راہی ہے، جو مقام اور منزل دونوں سے بے گانہ ہے شکیب کا شہر، ناصرؔ کاظمی کی زبان میں ’’شہر ستم گر‘‘ ہے جہاں کوئی ٹھہرتا ہی نہیں ہر ایک بے سمت آگے جا رہا ہے منزل کی شناخت کے لیے، لیکن کس نے منزل پائی ہے؟
بوجھ لمحوں کا ہر ایک سر پہ اٹھائے گزرا
کوئی اس شہر میں سستانے کو ٹھہرا ہی نہیں
وہاں کی روشنیوں نے بھی ظلم ڈھائے بہت
میں اس گلی میں اکیلا تھا اور سائے بہت
ہم سفر چھوٹ گئے، راہ نما روٹھ گئے
یوں ہی آسان ہوئی منزل دُشوار یہاں
کس دشت کی ہوا ہو؟ اتنا مجھے بتا دو
ہر سو بچھے ہیں رستے آؤں تو میں کدھر سے
ہائے، یہ تمنائے دشت نوردی اور بچھے ہوئے رستے بے سمت بے انتہا ذات کے بہت سے پہلو ایسے ہیں جو اتفاقاً منکشف ہوتے ہیں تو خود انسان حیرت میں پڑ جاتا ہے۔ یہ کیا ہوا؟ ایسا کیوں ہوا؟ اور اس طرح کیوں کر اضطراری اظہار برافگندہ نقاب ہوا؟ یہ الماسی منشور میں جھانکنے کا عمل ہے! اگر روشنی خارج سے داخل میں در آئے تو مختلف درپردہ رنگ باصرہ پر واضح ہوتے ہیں۔ اگر روشنی منھ موڑ لے تو تلاش و جستجو کے باوجود بھی بے رنگی اور بے حسی در پے، آزار ہوتی ہے۔
خالص سخن کی ابتدائی محرک وہ خلش ہوتی ہے جو منتظر رہتی ہے کہ کوئی لہو چراغ روشن ہو۔ یہ لہو چراغ جو ذات کی گنجلک بو قلمونی کے مختلف خطوط متقاطعہ پر نصب ہیں اور جب لہو چراغ کی لویں آہستہ آہستہ تیز ہوتی ہیں تو ایک ایسا رنگ کئی رنگوں کا اختصار بن کر جھلکتا ہے اور شناخت کے امکان کو لب و لہجہ دیتی ہے اور:
غمِ الفت مرے چہرے سے عیاں کیوں نہ ہوا؟
آگ جب دل میں سلگتی تھی، دھواں کیوں نہ ہوا؟
اُجڑا ہوا مکاں ہے یہ دل جہاں پہ ہر شب
پرچھائیاں لپٹ کر روتی ہیں بام و در سے
چمکے نہیں نظر میں ابھی نقش دور کے
مصروف ہوں ابھی عمل انعکاس میں
لگتا ہے کہ شکیبؔ ایک سنگلاخ اور بہت ہی پیچیدہ وادی کرب سے گزر کر وارد شہر اظہار ہوئے، ان کے پاس فرد کے المیوں اور اس کے ساتھ سماجی المیوں کا ایک مخلوط پس منظر ہے۔ اسی لیے کبھی کبھی فرد کے کرب کا اظہار سماج کی اجتماعی حسرتوں کا آئینہ لگتا ہے۔ پھر یہ صورت حال کچھ اور شکست و ریخت کا شکار ہوتی ہے۔ اس طرح فرد کا المیہ نطق / احساس / سامعہ / باصرہ اور ایسے ہی محسوسات کی انفرادی شہادتوں میں تبدیل ہو جاتا ہے۔ لیکن ارتکاز سراسر فرد کے محسوسات کی عکاسی کی سمت ہوتا ہے۔ شکیب نے ہر نقطۂ محسوس کو تکبیر و تلوین سے ایک نئی شعری کائنات کی تشکیل کا عنصر بنا دیا ہے۔ اس کے لیے ان کے منتخبہ پیکر قابل توجہ ہیں۔ مثلاً فصیل جسم، اپنے در و بام، آتش دان، نظر کی بلندی، دھوپ نگر، پردوں پر منقش آواز، اپنا دشت وغیرہ۔ ان پیکروں کا اصل لطف اشعار کی نشست میں روشن ملتا ہے۔ تجزیاتی فہرست تو صرف اشارہ کے لیے ہے۔
لیکن فی الاصل اس طرح کی پیکر سازی ہی کافی نہیں۔ شکیبؔ کی شاعری کا دوسرا اہم عنصر خارج کی علامتوں کی داخلی فکر کے ساتھ شکست و ریخت ہے۔ ان کے ہاں بصری علامتیں نئے طرز توضیح سے نئے ادب میں وقوع پذیر ہوتی ہیں۔ شکیب خالص شاعر ہیں اس لیے احساسات و تجربات کے تند، تلخ و شیریں نکتوں کے لیے بحث و تمحیص کو اپنی غزلوں میں جگہ نہیں دیتے۔ وہ سہل اور بلاواسطہ اظہار کو پسند کرتے ہیں لیکن فن کاری کے ساتھ، ان کی فن کاری اختصارِ بیان اور اشارہ کی تخفیف میں ہے۔ اشارہ کو پیش پیش نہ رکھ کر ایک خاص موقع کے لیے مخصوص رکھتے ہیں۔ اشارہ اسی وقت سامنے آتا ہے جب قاری اسے خود بہ خود محسوس کر لے۔ یہ بڑا نازک مرحلہ ہوتا ہے ایسا مرحلہ کہ جب اعادہ و تکرار کی خواہش جاگ اٹھتی ہے۔ قاری انبساط بیان سے بیدار ہو کر کہتا ہے کہ ہاں ایک بار اور تو دیکھیں ہم کہاں سے ہو کر آئے ہیں۔
یہ انوکھا پن تین مخصوص پردوں سے جھانکتا ہے۔ لفظیات کا انعطاف، پیکروں کی ندرت اور علامتی اشارہ کی نزاکت:
سوچو تو سلوٹوں سے بھری ہے تمام روح
دیکھو تو اک شکن بھی نہیں ہے لباس میں
تازہ کوئی ردائے شب ابر میں نہ تھا
بیٹھا تھا میں اداس بیابان باس میں
…
اتریں عجیب روشنیاں، رات خواب میں
کیا کیا نہ عکس تیر رہے تھے سراب میں
پانی نہیں کہ اپنے ہی چہرے کو دیکھ لوں
منظر زمیں کے ڈھونڈتا ہوں ماہتاب میں
…
گلے ملا نہ کبھی چاند بخت ایسا تھا
ہرا بھرا بدن اپنا درخت ایسا تھا
ذرا نہ موم ہوا پیار کی حرارت سے
چٹخ کے ٹوٹ گیا دل کا سخت ایسا تھا
…
اے روشنی کی لہر کبھی تو پلٹ کے آ
تجھ کو بلا رہا ہے دریچہ کھلا ہوا
…
اگر شکیب کے ہاں مستعملہ و مذکورہ مضامین کا بہ دقت نظر مطالعہ کریں تو یہ محسوس ہوتا ہے کہ وہ ترقی پسند اشتراکیت کے عقیدے سے مسافرت کرتے ہوئے ذات کی وجودیت کے دائرے میں رجوع کر رہے تھے۔ ان کے پاس اس لیے زر و سیم اور اہل وفا کا ازلی تفاوت کشتی اور ناخدا، بے وفائی احباب، ستم گری، اہل کرم اور دار و رسن کے مضامین کے نقوش بھی ملتے ہیں۔
اس نظریاتی پیش رنگی کے باوجود ان کے سارے تجربات اور بیان کردہ احساسات شخصی ہیں اور صداقتوں پر مبنی ہیں۔ ذات کے تجربے، ذاتی حوادث، ذات سے مقابلہ اور شخصی حسرتیں اور غالباً جدید تر شاعری کا یہ ابتدائی نقطہ تھا۔ وہ نقطہ کہ جب فرد، جو ملت کا نمائندہ بن گیا تھا یعنی ذرہ میں صحرا کی عکاسی آ گئی تھی۔ دوبارہ ملت کے اندر ایک منفرد وحدت بن گیا تھا یا بن رہا تھا۔
مجھے لگتا ہے کہ شکیب کے اس ذاتی المیے میں ان کی مہاجرت، زندگی کی حسرت اور روز مرہ زندگی کی گرسنگی ضرور شریک تھیں۔ ان کی خودکشی اس کا منطقی لیکن انتہائی شدید کار آخر تھا۔ اس میں شک نہیں کہ خواب، واہمے اور امکانات کو نئے میزان پر تلتے دیکھ کر حقائق کی کڑواہٹ سے روبرو ہو کر ظاہر ہے کہ ایسے حساس شاعر کی سوچ پر ضرب کاری کی طرح محسوس ہوا ہو گا۔ مسئلہ یہ ہے کہ فن کار عموماً اپنی تصویر (تخلیق) کو اظہار کے نقطۂ عروج پر لے جاتا ہے۔ اس کے پاس کئی کہے اور ان کہے مفروضات ہوتے ہیں۔ اس لیے وہ تصور کردہ، نئی دنیا، نئی زمین اور نئے آدم کی تصویر میں کاملیت کے جس مفروضے کو پیش نظر رکھتا ہے اس نہج شکل کی دیکھ کر دھوکا بھی کھا جاتا ہے اور چوکنا بھی ہو جاتا ہے۔ اسی لیے حقیقی پیکر خود جب نعرہ بن کر سامنے آ جاتے ہیں تو یہ جان لیوا قسم کا تجربہ ہوتا ہے:
فصیلِ جسم پہ تازہ لہو کے چھینٹے ہیں
دیار چشم سے آگے نکل گیا ہے کوئی
پھر سن رہا ہوں گزرے زمانے کی چاپ کو
بھولا ہوا تھا دیر سے میں اپنے آپ کو
لگتا تھا بے کراں مجھے صحرا میں آسماں
پہنچا جو بستیوں میں تو خانوں میں بٹ گیا
اجنبی بن کے جی رہا ہوں میں
لوگ مانوس ہوتے جاتے ہیں
شکیب کی شاعری کی زبان اپنے عہد کی نئی زبان تھی۔
اُردو کا سب سے بڑا المیہ رہا ہے اس کی شعری زبان پر صرف و نحو، قواعد و مصطلحات کی گرفت ہمیشہ بہت سخت رہی ہے۔ اسی لیے جب بالواسطہ طرز پر شعری زبان میں لفظیات کے تجربے جب جدید ادب میں شروع ہوئے تو دِل آویز نئے پن کا احساس ہوا! ہاں کچھ مجاوران قدامت چوکنا بھی ہوئے فتوے بھی صادر ہوئے۔ شکیبؔ نے اس لسانی جدت کو قدرے اعتدال و تواضع سے برتا:
رہتا تھا سامنے ترا چہرہ کھلا ہوا
پڑھتا تھا میں کتاب یہی ہر کلاس میں
…
اک کرن تھام کے میں دھوپ نگر تک پہنچا
کون سا عرش ہے جس کا کوئی زینہ ہی نہیں
…
عالم میں جس کی دھوم تھی اُس شاہکار پر
دیمک نے جو لکھے کبھی وہ تبصرے بھی دیکھ
…
خلش غم سے مری جاں پہ بنی ہے جیسے
ریشمی شال کو کانٹوں پہ کوئی پھیلا دے
…
لسانی تجربہ کا سب سے دشوار نکتہ یہ ہوتا ہے کہ نامانوس نہ لگے، مضحک یا مصنوعی نہ لگے۔ شکیب کی یہ کامیابی تھی ؛ ان کے رائج کردہ پیکر اور لفظیاتی مرکب شعر و سخن کی دنیا میں مسرت کے ساتھ قبول کیے گئے۔
شکیب کے اس شعری مجموعے میں منظومات بھی ہیں جنھیں میں اس ذوق و شوق سے نہیں پڑھتا جس چاؤ سے ان کی غزل پڑھتا ہوں۔ شکیب کی نظموں میں درد اور انکشاف ذات کے لیے نیچرل شاعری کا پس منظر ملتا ہے۔ وہی منظر نگاری، وقت و ساعت کا ذکر موسم کی طرف اشارہ اور اس تمام مسرح (Dramatic Stage) میں کیفیتِ دل کا بیان اس لحاظ سے شکیب کی نظموں میں وہ مضبوطی نہیں جو ان کی غزلوں میں ہے۔ ان نظموں میں پلاننگ اور آورد کا دخل ملتا ہے۔ چند مثالیں پیش ہیں:
(۱) اس کے طاق شکستہ پر لرزتے دیپ
میں نے پوچھا
ہم نفس
اب ترے بجھنے میں کتنی دیر ہے؟ (لرزتا دیپ)
…
(۲) دھیرے دھیرے گر رہی تھیں نخل شب سے
چاندنی کی پتیاں
بہتے بہتے ابر کا ٹکڑا کہیں سے آ گیا تھا درمیاں
ملتے ملتے رہ گئی تھیں مخملیں سبزہ پہ دو پرچھائیاں (گریز پا)
…
(۳) جہاں پناہ: سسکنے لگی چراغ کی لو
شعاع تازہ سے چھلنی ہے چادر ظلمات
بلند و بام ہراساں ہیں رہ نشینوں سے
اک ایسے موڑ پر آئی ہے گردش حالات (نئی کرن)
مطالعے کے تکرار کی اجازت لیتے ہوئے، میں اس تحریر کے خاتمے پر ایک بار پھر کہوں گا کہ شکیبؔ جلالی غضب کے ذہین اور خلاق شاعر تھے۔ ان کے کلام سے ایک عجیب سا داخلی انبساط محسوس ہوتا ہے۔ گویا لہو میں روشنیاں جلاتا ہے:
میں ساحلوں میں اُتر کر شکیب کیا لیتا؟
ازل سے نام مرا پانیوں پہ لکھا تھا
٭٭٭