آج کل اکثر شاعروں کا یہ کہنا ہے کہ اُن کی شاعری عوام کے لیے نہیں بلکہ خواص کے لیے ہے، اور تمام شاعر الگ الگ رنگ کی غزلیں اور نظمیں کہتے ہیں، بلکہ ایک دوسرے سے جداگانہ مزاج کے شعر کہتے ہیں، ایسی صورت میں یہ سوال پیدا ہوتا ہے وہ ’’خواص‘‘ کون ہیں اور اُن کی خصوصیات کیا ہیں؟ یہ ایک دل چسپ سوال ہے۔۔۔
ممتاز نقاد، ادیب و شاعر جناب شمس الرحمن فاروقی نے اپنے پہلے مجموعۂ کلام ’’گنجِ سوختہ‘‘ میں بدرچاچ کے اس بیان کو نقل کیا ہے کہ ’’جب کسی نے اس سے کہا کہ اُس کی شاعری مشکل سے دو آدمیوں کو محظوظ کر سکتی ہے، تو اُس نے کہا کہ وہ اُنھیں دو آدمیوں کے لیے لکھتا ہے۔‘‘ یہاں پر اس بات کا ذکر کرنا ضروری ہے کہ فاروقی صاحب کا ایک انقلابی مضمون تھا ’’ترسیل کی ناکامی کا المیہ‘‘ جو ’’نئے نام‘‘ میں پیش لفظ کے طور پر شریک ہے۔ اس مضمون کا اہم نکتہ یہ تھا کہ زباں و بیان اظہار مطلوب کے لیے ایک غیر مکمل واسطہ ہے۔ اس میں فاروقی صاحب نے بے حد مہارت کے ساتھ ترسیل کے موضوع کا جائزہ لیا ہے اور منتج ترسیل کے مختلف زاویے پیش کیے ہیں۔ میرے خیال میں اس کے تناظر میں اس دور کے مختلف جدید شعراء کے مجموعہ ہائے کلام کا مطالعہ کافی چشم کشا ہو گا۔
شعراء جن کا مطالعہ وسیع ہے اور لغت دانی بھی۔۔۔ بعض اوقات لفظ پرستی کے سنگلاخ رجحان کی طرف نکل جاتے ہیں بلکہ تعقل پسندی، تعقید اور ارادی ابہام کے شوقین ہو جاتے ہیں۔ یہ سچ ہے کبھی کبھی ارادی ابہام شاعری کو خوب صورت بھی بنا سکتا ہے، لیکن بیش تر بد رنگی ہاتھ آتی ہے۔
کامیاب نتائج کی چند مثالیں پیش ہیں:
۱۔ شمس الرحمن فاروقی
سطح پہ تازہ پھول ہیں، کون سمجھ سکا یہ راز۔۔
آگ کدھر کدھر لگی، شعلہ کہاں کہاں گیا
کرب کے اک لمحہ میں لاکھ برس گزر گئے۔۔
مالک حشر کیا کریں عمر دراز لے کے ہم
ان کا خیال ہر طرف، ان کا جمال ہر طرف
حیرت جلوہ روبرو، دست سوال ہر طرف
۲۔ ظفر اقبال
اک عمر ہوئی جس میں خسارے سے لگا ہوں
پکڑا ہے وہی کام دوبارے سے لگا ہوں
کون سے عکس عجب کا منتظر ہوں صبح سے
راہ پر بیٹھا ہوں آئینہ ہے چمکایا ہوا
خزاں کی شام تھی یا عکسِ نوبہار کوئی
کہ ابر شاخِ ہوا پر کھلا گلاب ایسا
۲۔ عادل منصوری
شہر سمجھے تھے جسے خون کا دریا نکلا
گھر کی دیوار گری موت کا سایہ نکلا
تالاب پر تھی پیڑ کی ٹہنی جھکی ہوئی
پانی پہ اپنا عکس جو دیکھا تو ہنس پڑی
اُس کے قریب جانے کا انجام یہ ہوا
میں اپنے آپ سے بھی بہت دور جا پڑا
یہ شعراء خوب جانتے ہیں کہ الفاظ بڑے بیش قیمت مہرے ہیں اور ان سے خوب کھیل کھیلا جا سکتا ہے۔۔ اور اس کھیل کو وہ مشاقی کے ساتھ کھیلتے ہیں مثلاً ترتیب کے رد و بدل سے جو ترکیبی اشکال وقوع پذیر ہوتی ہیں شاعری میں (اگر شاعر چابکدست ہو تو) کافی کامیابی کے ساتھ استعمال کی جا سکتی ہیں۔
تجرباتی شاعری میں کئی زاویے پیش نظر ہو سکتے ہیں، مثلاً تراکیب وضع کرتے ہوئے اگر کسی مستعملہ لفظ کو اضافی زور (stress) کے ساتھ پیش کیا جائے تو معنی میں ایک خاص ندرت آ جاتی ہے۔ اور شاعر اس نادر ترکیب پر نازاں بھی ہوتا ہے، لیکن اس طرح کے تجربے میں بعض اوقات یہ تشکیلات بے حد بدمزہ اور ناکام بھی ہو گئی ہیں، مثلاً:
۱۔ شمس الرحمن فاروقی
ہے اتنا حبس پھر بھی زباں کھولتے ہیں ہم
ائے ابرِ گرد سعیِ تکلم پہ مت برس
ہم سب اسی باد گرد میں عریاں ہیں
چندر بدن خوش لباسِ خوف نہیں کچھ
سرسوں کے پیلے کھیت پہ نیلا فلک کا رنگ
گویا شراب زرد تھی مینا کبود تھا
۲۔ ظفر اقبال
رسیلے بہت غضب تھے ظفرؔ اُس کے ہونٹ
وہ شہتوت منہ میں گھلا دیر تک
کڑک بجلی، بھڑک شعلہ، دھڑک دھوپ
بدل بادل اُمڈ کہسار نے کا۔۔۔
میرے نسخے میں ہے شامل ترے رخسار کا سیب
اور یہ ہونٹ کا جامن بھی مجھے چاہیے ہے
۳۔ عادل منصوری
بدن سنگ شہتیر کے درمیاں
لہو رنگ شعلے اُبلنے لگے
تے کے اوپر دو نقطے
بے کے نیچے اک نقطہ
جلنے لگے خلا میں ہواؤں کے نقشِ پا
سورج کا ہاتھ شام کی گردن پہ جا پڑا
مندرجۂ بالا اشعار سے صاف ظاہر ہے کہ حسن پیدا کرنے کی نیت سے انوکھی نوع اور مزاج کی تراکیب جب اشعار میں داخل کی گئیں تو بری طرح ناکامی ہاتھ آئی۔۔۔ غالبؔ کی بات کیا آتی، ذوقؔ والی کیفیت بھی نہیں!!
میں یہاں پر یہ بھی کہنا چاہوں گا کہ کسی شاعر کی شاعری کا تجزیہ اُس وقت تک مکمل نہیں ہوتا جب تک شاعری کی نفسیات، شعوری رو اور ماحول، زمان و مکاں کی اُن کیفیات کا بہ غور مطالعہ نہ کیا جائے، جن کے زیرِاثر اُس کے کلام کی تخلیق ہوئی ہے۔
اس سے یہ نتیجہ اخذ کیا جا سکتا ہے کہ تنقید چاہے کیسی ہی تجزیاتی نگاہ سے مطالعہ کرے، کیسے ہی نتائج تک رسائی حاصل کرے، کامیاب فن پارے کے بنیادی عناصر کی نشان دہی کرے، صرف ادراک کی بناء پر کوئی اچھی تخلیق خلق کی جا سکتی ہے۔ تنقید نگار جو رہ رہ کر بہ ضد ہوتے ہیں کہ اُن کے پاس سخن بے مثال کی کلید ہے اور وہ واقفِ رازِ دروں ہیں، ہم نے دیکھا ہے کہ اُن کا کلام بھی اچھی شاعری کہے جانے کے قابل نہیں ہوپاتا۔ اسی طرح جو شاعر اس لسانی رویّہ سے متاثر ہیں کہ شاعری میں دور ازکار اور غیر عمومی زبان کا ارادی استعمال ہو، تو ایسی شاعری یا تو چیستان اور معمہ بن جاتی ہے یا پھر لغت کی محتاج ہو کر رہ جاتی ہے۔ اس طرح کی ثقیل و بے ربط تخلیق میرے خیال میں قابلِ قبول اُسلوب سے پرے اور اجنبی ہوتی ہے۔
ایک اور اہم زاویہ یہ بھی ہے کہ شاعر کے کوائف اور اس کی شاعری کے عوامل کا جائزہ لیا جائے۔ یہ دیکھنا ہو گا کہ شاعر کس مقام پر شعر کہتا ہے، کیا وہ ماحول اس کی تخلیق کے ہم مزاج بھی ہے یا نہیں؟ اگر کوئی صاحب جھیل ڈل کے کنارے بیٹھ کر مشینی زندگی کا کرب بیان کر رہے ہیں تو اُسے ذہنی انتشار یا مصنوعیت ہی کہا جا سکے گا۔ جدے دیت یا خالص شاعری کا یہ مقصد ہرگز نہیں ہے کہ گرمی کے موسم میں خیالی تنہائی کا کمبل اوڑھ لیا جائے۔۔!!
مذکورہ بالا مثالوں کے تناظر میں یہ سوال اُبھر کر آتا ہے کہ اگر کوئی قابل شاعر اپنے مرعوب طریقۂ اظہار سے ہٹ کر نامانوس اور بھاری بھرکم تراکیب کو اپنے کلام میں جگہ دے تو کیا یہ رویّہ قابلِ قبول ہو گا؟ میرے خیال میں اس کا جواب نفی ہی میں ہونا چاہیے۔ یعنی یہ رویّہ نظر ثانی کا مستحق ہے!
اس بات میں کوئی شبہ نہیں کہ شاعر زندہ رہے گا اور تنقید نگار اوجھل ہو جائے گا۔ شاعری تنقید نگاری سے بہت بلند ہے، لیکن اس بات سے بھی انکار نہیں کیا جا سکتا کہ تنقید ہی شعر کی قیمت کا تخمینہ لگاتی ہے۔ اور تنقید کے غیاب میں شاعری پرکھ سے محروم ہو جاتی ہے۔ یہ بات بھی قابلِ غور ہے کہ دبستانِ داغؔ کے کتنے شاعر اب ادبی طور پر زندہ ہیں؟ گنتی کے چند؟ کئی سو شاعر جو اشتراکی جھنڈے کے نیچے شاعری کر رہے تھے، اب قصۂ پارینہ بن گئے ہیں، فراموش گاری کی دھول اُن پر جم رہی ہے؟ کہاں گئے وہ بزمِ ادب کے شاہزادے؟ صرف چند ہی نام اب بھی تابندہ ہیں۔ عوام کی خواہش کے لیے غالبؔ کے لیے یہ نا ممکن تو نہ تھا کہ وہ حق نے دیے ہیں تجھے کان دو والی شاعری کر کے لمحاتی داد حاصل کر لیتے۔ لیکن شاید اُنھیں اس قسم کا تجرباتی رجحان کسی طور پسند نہ تھا۔ کیوں کہ اس قسم کی آسان شاعری کی حیات بہت مختصر ہوتی ہے۔
ذرا غور تو کیجیے کہ وہ ساری نظمیہ تخلیقات جو نیچرل شاعری، جدید تجرباتی شاعری، ترقی پسند شاعری وغیرہ کے زیرِ اثر لکھی گئی تھیں آہستہ آہستہ بجھ گئی ہیں۔ ان کی دھندلی یاد ہی شاید بچی رہ گئی ہے!!
اچھے شاعر کی شاعری کی زیریں رو اُس کی تخلیقی فکر کو جھٹلاتی نہیں۔ غالبؔ کا بہاریہ قصیدہ ہو یا نشاط انگیز کلام اُن سب سے رہ رہ کی فکری ترشیِ فکر، غم انگیزی اور لسانی ندرت چلمن ہٹا ہٹا کر جھانکتی ملتی ہیں۔ اس بات کو ہم صدقِ دل سے مانتے کہ شاعری کی زندگی خلوص اظہار سے معنون ہے۔ اور فن کوئی نعرہ نہیں ہے، یہ تو آمد ہی آمد ہے۔ آورد تو مخلوق کلام ہی میں ملے، شاید!!
اس تناظر میں کسی شاعر کا یہ دعویٰ کہ اس کا کلام خواص ہی کے لیے ہے، شاید صحیح نہیں، ہاں آپ کا کلام کس حد تک اور کس حلقۂ اہلِ ذوق میں مقبولیت حاصل کرے یہ تو وہ بھی نہیں جانتا۔۔۔ ہاں قبولیت کے بعد ہی یہ سوچا جا سکتا ہے کہ رسائی کس حلقہ میں بہ آسانی ہوئی۔ اقلیدسی ضابطوں، فلسفیانہ نظریات کی بھرمار، جمالیات و جدلیات کے ارادی تحفظات کو راہ دینے اور فارم کے بے جا تجارب اسے کامیابی سے ہم کنار نہیں کر سکتے، اگر شاعری بنیادی حرارت نہ ہو تو!!
یہ بات تو بالکل واضح ہے کہ اچھے کلام کی تخلیق کے لیے کسی تنقیدی فارم، فلسفیانہ پیمانے، اُسلوبیاتی سانچے کی پابندی قطعاً ضروری نہیں۔ یہ بھی سچ ہے کہ اگر کوئی اعلیٰ صلاحیت رکھنے والے تنقید نگار سے یہ امید رکھے کہ وہ اپنے سخن گوئی کے استعمال سے شبانہ روز نت نئی وضع کے درجۂ اول کے کلام کا ڈھیر لگا دیگا امکان سے پرے کی سوچ ہے۔ اگر ایسا ممکن ہوتا تو اُردو تاریخ میں اتنے تنقید نگار شاعر گذرے ہیں کہ اُردو ایسے جید شعر و سخن سے مالا مال ہوتی۔۔۔ لیکن افسوس کہ ایسا نہ ہو سکا۔
نہ جانے کتنے عظیم اساتذہ اور ماہرانِ عروض گذر چکے ہیں کہ اُن کے تلامیذ گمان و شمار میں لامحدود کہے جا سکتے ہیں۔ لیکن اُن کی تعلیمات بھی مختلف تھیں، اُن کا زور بھی بالکل الگ الگ اہم نقاط پر رہا۔ بہت سے ایسے ماہرین نے بھی کوئی قابلِ ذکر تخلیق اب تک نہیں پیش کی اور مکمل طور سے کسی خاص ڈھانچہ پر لکھی تخلیق اعلیٰ اور ارفع مقام پر چمکتی ہوئی نہیں ملتی جو ہر طرح سے ناپ تول سے منطبق ہو۔۔ ہر کامیاب شاعر نے اپنا مخصوص لب لہجہ شناخت کر لیا اور اس طرح اس کی تخلیق اس کی پہچان بن کر اُبھری۔
اس لیے شاعری تنقید کی پیرو تو بن نہیں سکتی۔ ہاں شاید شاعری کے غیاب میں بہرطور کوئی تنقید جو شاعری سے تعلق رکھے قطعاً خارج از امکان ہے۔ یعنی پہلے شاعری پھر اس پر تنقید وجود میں آتی ہیں۔ ہاں ایک اور امکان ہے کہ اچھی تنقید اچھی شاعری کو ضرور تحریک دے سکتی ہے، لیکن شاعری میں شاید ہی اس تحریر کی چھاپ ملے۔ کیوں کہ عمدہ شاعر کو مدتوں زندہ رہنا ہے۔ اس کی شاعری میں حیات کا ہونا لازم ہے۔۔۔
٭٭٭