میرا پہلا نثری مضامین کا مجموعہ ’’ادبی گفتگو‘‘ ۲۰۰۷ء میں اشاعت پذیر ہوا۔ ادبی گفتگو کو میں نے کافی سوچ بچار کے بعد اربابِ ادب کی نذر کیا تھا۔ اس کتاب پر اتنے مضامین تبصرے، خطوط اور فون آئے کہ دل کو اطمینان سا محسوس ہوا۔ اپنا ایک مصرعہ سچ ہوتا ہوا لگا کہ:
’’ ہم بھی کچھ ہیں ہمیں اس طرح کا دھوکا سا لگے‘‘
عزیزم جعفر جری کی کمپوزنگ، ترتیب و تزئین، اجرا و نشر میں سلیقہ مندی نے میری اس پیشکش کو خاطر خواہ کامیابی سے ہم کنار کیا۔
…
٭ ’’ادبی گفتگو‘‘ پر اکابرین، احباب اور مبصرین نے اظہار خیال کیا، تو یہ احساس قوی ہوا کہ کچھ تو ہے جو میری تحریروں کو اعتبار بخشتا ہے۔ نام ہی کچھ ایسے ہیں ؛ حسن فرخ (مرحوم)، مغنی تبسم (مرحوم)، قدیر زماں (مرحوم)، شمس الرحمن فاروقی، افتخار امام، مصحف اقبال توصیفی، مظہر امام (مرحوم)، علی ظہیر (مرحوم)، زبیر رضوی (مرحوم)، قطب سرشار، مرزا عمیر بیگ، مقصود الٰہی شیخ، سلیمان اطہر جاوید (مرحوم)، دیپک بد کی، شاہد حنائی، حامدی کاشمیری، قیوم راہی، سلام بن رزاق، عامر قدوائی، شکیل جمشید پوری، میمونہ علی چوگلے، حنیف کاتب اور بہت سے ہم سفر۔
٭ میں ان تمام مہربانوں کا بے حد ممنون ہوں اور جو راہی ملکِ عدم ہوئے اُن کی مغفرت کے لیے دعا گو ہوں۔ مجھے اس کا بھی اندازہ ہے کہ بہت سے اور لوگ بھی ہیں ؛ جو شاید بہ وجوہ لکھ یا کہہ نہ پائے یا، اُن تک ہماری رسائی راست نہ ہو سکی۔ وہ بھی میرا دِلی تشکر قبول فرمائیں۔
…
٭٭ دلکش اور معیاری نثر و نظم دونوں کا میں شائق رہا ہوں۔ اُردو، انگریزی اور کچھ حد تک عربی تحریروں میں اپنی پسند کے مطابق ذوقِ مطالعہ کی تسکین حاصل کرتا رہتا ہوں۔ جدید، قدیم، اساطیری، تجرباتی سب تحریریں پڑھتا رہتا ہوں کہ نہ جانے کون سی بات اچھی لگے۔ ہو سکتا ہے کہ میری پسند کا زاویہ سب کے جیسا ہی ہو یا پھر مختلف۔
…
٭ میں نے بعض ایسے عمدہ لکھنے والوں کو پڑھا ہے کہ جن کی تحریریں درِ دل پر دستک دیتی رہیں۔۔ باوجود اس کے کہ ہو سکتا ہے کہ میرا ذہن اُن کی ہر منطق سے متفق نہ رہا۔ کچھ ایسے بھی لکھنے والے ہیں جن کی تحریریں بوجھل، الفاظ و اصطلاحات سے لدی پھندی، فلسفہ اور منطق سے لیس بلکہ مسلح لیکن قاری کے لیے غیر دلچسپ۔ مجھے اس بات کا جلد ہی ادراک ہو گیا کہ کم از کم تحریر مقصود ترسیل کو واضح طور پر سر انجام دے کہ حقِ اظہار کچھ فیصد ادا تو ہو۔
یہاں پر میں اُن مصنفوں اور مولفوں کا ذکر ضرور کروں گا کہ وہ ادب کے اُفق پر اُبھر آئے ہیں نجوم کی طرح۔ اُن میں طرح طرح کے ماہرین بلکہ اُستادانِ فن ہیں، بزعم خود یا بر زبان عام۔۔ مثلاً: کچھ لائق فائق تنقید نگار اپنے مضمون کی ابتدا کے تین چار پیراگراف مغرب یا مشرق کی حوالوں سے مزین کر دیتے ہیں (فارسی اور عربی یا پھر انگلش، فرینچ، جرمن کے یا ایسی ہی غیر ملکی زبان کے) چاہے موضوع سے مطابقت رکھیں یا قریب قریب کے ہوں تو مضمون میں زورِ بیان پیدا کرنے اور اوّلین آرائش کے لیے ممد و معاون بنا لیتے ہیں، ان عظیم ناقدین کی علمیت کا ایک زمانہ قائل ہو جاتا ہے اس طریقۂ کار کے سبب۔
ایک اور نوع ایسے ادیبوں کی ہے جو اپنے مضامین میں اپنی خدمات و علمیت کا ذکر بالواسطہ یا بلا واسطہ سے کر کے اوراق سیاہ کرتے ہیں عبارتوں میں یہ بھی ذکر ہوتا ہے کہ کسی کو کس طرح کام دلایا یا ترقی کروائی، یا کس مسئلہ کا حل کر دیا۔۔ ایسے مضامین عموماً آپ بیتی، سوانح اور خاکوں میں پائے جاتے ہیں۔
کچھ ناقدین محاذ آرائی میں مہارت رکھتے ہیں وہ اپنے پسندیدہ موصوف شاعر یا ادیب کو گھڑ دوڑ میں سب سے آگے لے جانے میں بضد ہو تے ہیں، بار بار اپنے ارشادات کی تکرار و تاکید بھی کر تے جاتے ہیں، یہ ظالم کبھی کبھی اچھے خاصے قلم کار کو ناکام بنا نے کے لیے طرح طرح کے غیر متعلق جملے لکھ جاتے ہیں۔
اس کے علاوہ کچھ رسائل کے مدیر یا اربابِ حل و عقد، جامعات اور کلیات، مذہب و مسلک، اداروں اور تحریکات سے وابستہ یا منسلک لوگ مخصوص مصلحتوں سے نثر نگاری کرتے ہیں۔ ان مطبوعات میں چند تود رجۂ اوّل کی ہو تی، مگر بیش تر اُصولی اور مخصوص ڈھانچہ پر ترتیب عمومی نوع کی ہوتی ہیں جو نصابی ڈھانچہ کے سبب لکھی جاتی ہیں۔
گرچہ زمانۂ حاضر کی مطبوعات میں اُردو ادب کی نثری کتابوں کی بہتات ہے۔ لیکن عموماً جس معیار کی کتابیں سامنے آ رہی ہیں وہ دل کو نہیں بھاتیں۔ اُردو ادب کے میدان میں غالب کے بقول: ہر بوالہوس نے حسن پرستی شعار کی، کچھ خام کار اپنی جبلت کی تسکین کے لیے بھی مصنف بنے پھر تے ہیں۔ اُن کی بھی کتابوں میں بھی کبھی کبھی کوئی چمکتا شرر مل جاتا ہے۔ ورنہ راکھ ہی راکھ۔
…
٭ اب بھلا اُس انبار میں اور طباعت و نشر و اشاعت کی اس دل شکن کیفیت میں مجھے ایک اور نئی نثری کتاب کو ترتیب دیتے ہوے عجیب سی بے دلی محسوس ہوتی رہی۔ لیکن کچھ حد تک مذکورہ بالا تبصروں اور تذکروں نے یہ احساس دلایا کہ میری تحریریں بھی کسی حد تک وجودی شناخت رکھتی ہیں۔ اور مجھے نثری اور تنقید مضامین لکھنے چاہئیں۔ چاہے یہ آواز پُر زور نہ ہو، پُر شور نہ ہو۔۔ لیکن آواز تو ابھرے۔۔ اچھی نثر کے سناٹے کو توڑنے کی کوشش تو ہو۔
…
اس لیے ’’ادبی گفتگو‘‘ کے بعد ایک دہائی گذرنے پر میں نے دیکھا کہ خاصی تعداد میں میرے مضامین اور تحریریں جمع ہیں، جو اس قابل ہیں کہ کتابی شکل میں طبع ہو جائیں، شاید کوئی کبھی کسی طرح اس سے مستفید بھی ہو۔
جب میں نے عزیزم جعفر جری سے اس بات کا ذکر کیا تو اُن کی رائے کو مثبت پایا۔ جعفر نے میری تحریروں کے انتخاب اور ترتیب میں بھی قابلِ ذکر مساعدت کی۔ اس طرح یہ کتاب کی تشکیل ہوئی۔
…
تو قارئین!! ان حالات و کوائف کے درمیان میں یہ کتاب ’’تعارف و معیار‘‘ آپ کی نذر کر رہا ہوں۔۔ ’’گر قبول افتد زہے عز و شرف‘‘
’’تعارف و معیار‘‘ میں فنِ شعر کی اہمیت پر ایک مضمون ہے، اس کے علاوہ اہم مطالعے، منتخب تحریریں، وفیات اور تبصرے شامل ہیں جو مختلف مراحل پر میں نے لکھے، حیدرآباد میں بھی اوراپنے کویت کے قیام کے دوران، اخبارات، رسائل اور مجلات کی اشاعتوں، مخاطبتوں، مشاعروں، ادبی محفلوں، سیمیناروں اور ادبی مجالس میں شرکت کے تناظر میں۔ ان میں سے بیش تر تحریریں اشاعت پذیر ہوئی ہیں۔
…
٭٭ میری محبتیں اور ممنونیت اُن تمام کے لیے جنھوں نے میری قدردانی کی:
(۱) ادارے اور انجمنیں: ادارۂ ادبیات اُردو، حیدرآباد لٹریری فورم، ارباب کویت آئیل کمپنی، انجمن تہذیب ادب کویت، حیدرآباد مسلم ویلفیر ایسوسی ایشن کویت، انڈین مسلم ویلفیر ایسوسی ایشن کویت، کوکن ادبی سرکل کویت، انجمن فروغِ ادب کویت، مجلس فخرِ بحرین برائے فروغ اُردو اور بہت سے ہند و پاک کے ادیب اور شعرائے کویت۔
(۲) اخبارات، رسائل و جراید: روزنامہ ’’سیاست‘‘ حیدرآباد، روزنامہ ’’منصف‘‘ حیدرآباد، روزنامہ ’’ اعتماد‘‘ حیدرآباد، ’’ذہن جدید‘‘ دہلی، ’’نئی کتاب‘‘ دہلی، ’’اسباق‘‘ پونا، ’’تحریک ادب‘‘ وارانسی، ’’لاریب‘‘ لکھنو، ’’سب رس‘‘ حیدرآباد، ’’شعر و حکمت‘‘ حیدرآباد، ’’برگِ آوارہ‘‘ حیدرآباد، ’’وقارِ ہند‘‘ حیدرآباد، ان کے علاوہ ’’ادبی گفتگو‘‘ می شامل مضامین جن رسائل میں شائع ہوئے جیسے ؛ ’’کتاب‘‘ لکھنو، ’’آہنگ‘‘ گیا، ’’مورچہ‘‘ گیا، ’’پیکر‘‘ حیدرآباد، ’’کتاب نما‘‘ دہلی، ’’ہماری زبان‘‘ دہلی، ’’آندھراپردیش‘‘ حیدرآباد۔ وغیرہ
…
٭ میرے لیے یہ موقع اُن محترم لوگوں کو بھی یاد کرنے کا ہے، جو اوائل زندگی میں مجھے نثری تحریروں کی سمت راغب بھی کرتے اور ہم نوائی بھی۔۔ اُن میں سے چند نام یہ ہیں جن کا میں ہمیشہ شکر گزار رہوں گا: مولوی ابراہیم عمادی ندوی، مولوی سعید الحق عمادی، وقار خلیل، کلام حیدری، کنول پرشاد کنول، اختر حسن، عزیز قیسی، اکمل حیدرآبادی، محمود خاور، حسن فرخ، عابد سہیل، اکبر الدین صدیقی، نقی علی خان ثاقب، غیاث متین، اعظم راہی، صفدر حسین، راشد آذر اور بہت سے ایسے مہربان جو کسی نہ کسی مرحلے میں میرے قریب رہے۔ اس لمحہ ممنونیت میں میں اپنے اُن مہربان اساتذہ کو بھی یاد کرنا چاہوں گا جنھوں نے میرے ادبی اور علمی ذوق کو تازہ کار کیا، محترمان ؛ عبد الشکور، قدرت اللہ بیگ، مسعود مرزا، پروفیسر رام جی، پروفیسر سید سراج الدین، غلام جیلانی اور کئی۔ (اُن میں کئی فردوسِ مکاں ہو چکے ہیں، اللہ مغفرت کرے)
…
٭ ان مضامین کی تخلیق اور اشاعت کے دوران میری اہلیہ عالیہ تسنیم نے جس رفاقت اور ہم سفری سے ساتھ دیا وہ بے مثل ہے، وہ ہر طرح شکریے کی حقدار ہیں۔ وہ احباب جنھوں نے کویت کے زمانے میں میری ان تحریروں کو پہلے پہل پڑھا اُن میں جو نام مجھے قیمتی ہیں وہ ہیں نور پرکار، صابر عمر گالسولکر، میر راشد علی، جعفر جری، ڈاکٹر سید خواجہ مشتاق علی، عامر قدوائی، شکیل جمشید پوری، نذیر فتح پوری، جاوید انور، اقبال وانو، محبوب عالم اور جاوید مسعود۔۔ اور کئی۔
… آخرِ کلام جو اوّلِ کلام ہے:
میں ہر حال میں اور ہر لمحہ شکر بجا لاتا ہوں ربِ کریم اللہ تعالیٰ کا جس کا کرم ہمیشہ ہم پر رہا اور دِلی احسان مندی سر چشمۂ رُشد و ہدایت سرکارِ دو جہاں محمد مصطفی رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی جناب میں کہ جن پر میرا سب کچھ فدا۔۔۔
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...