کسی احساسِ کمتری یا ذلت کے بغیر خود کو تبدیل کر لینے کی ایک مثال انیسویں صدی کے جاپان کی ہے۔ اس تنہاپسند ملک نے ممکنہ کوشش کی تھی کہ کسی غیر سے اس کا تعلق نہ بنے۔ زراعت اور سیاست فیوڈل جاگیرداروں کے ہاتھ میں تھی۔ معاشرتی سٹرکچر ہائیرارکی کا تھا۔ اور ملک زوال کا شکار تھا۔ تاجر اور کاروبار کرنے والے معاشرے میں سب سے نچلا طبقہ شمار ہوتے تھے۔ چین اور ڈچ سے محدود پیمانے پر تجارت کو چھوڑ کر غیرملکیوں سے تجارت کرنا منع تھا۔ لیکن پھر ان کا ایک اجنبی سے ٹاکرا ہوا۔ یہ کموڈور میتھیو پیری تھے جو 8 جولائی 1853 کو یہاں اپنا بیڑا لے کر آئے اور مطالبہ کیا کہ جاپان تجارت کے لئے اپنی بندرگاہ کھولے اور امریکی ملاحوں کے ساتھ اچھا سلوک کیا جائے۔ پیری کے مطالبات مسترد کر دئے گئے۔ اگلے سال پیری بڑا بیڑہ لے کر آئے۔ اور بالآخر 31 جولائی 1854 کو کاناگاوا کے معاہدے پر دستخط کروا کر گئے۔ اس نے جاپان کی دو سو سال کی خودساختہ تنہائی ختم کر دی۔
یہ وہ واقعہ تھا جس نے جاپانی اشرافیہ کو ہلا کر رکھ دیا۔ انہیں اس احساس پر مجبور کر دیا کہ وہ امریکہ اور عسکری ٹیکنالوجی میں دوسری مغربی اقوام سے کتنا پیچھے رہ گئے ہیں۔
اس چیز کی سمجھ نے جاپان کے اندر انقلاب کو تحریک دی۔ 1603 سے امورِ سرکار چلانے والے ٹوکوگاوا شوگن ہٹا دئے گئے۔ بادشاہ مائیجی کو لایا گیا۔ اصلاح پسندوں کا اتحاد بنا۔ ان کا انتخاب یہ تھا کہ جن لوگوں نے انہیں شکست دی ہے، ان سے سیکھا جائے۔ سیاسی، معاشی اور سماجی تبدیلی کی مہم چلی۔ اس کا مقصد یہ تھا کہ وہ مغربی اقوام کی طرح مضبوط ہو سکیں اور اس کے لئے سائنس، ٹیکنالوجی، انجنئیرنگ، تعلیم، آرٹ، ادب، لباس اور آرکیٹکچر کو بھی اپنایا جائے۔ یہ مشکل ثابت ہوا لیکن جاپان انیسویں صدی کے آخر تک ایک بڑی صنعتی طاقت بن چکا تھا۔ اس نے یکطرفہ معاشی معاہدوں کو ختم کیا۔ اور ایسی ایک کالونیل طاقت (روس) کو 1905 کی جنگ میں شکست دی۔ مائیجی کے دور نے جاپان کو نہ صرف مضبوط کیا تھا بلکہ طاقتور بھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
لیکن ہر کلچر غیروں کے ساتھ سامنا ہونے کی صورت میں جاپانیوں کی طرح اپنی انا کو ایک طرف نہیں کر پاتا۔
چین میں ایک “ذلت کی صدی” کی اصطلاح استعمال ہوتی ہے۔ یہ 1840 کے بعد کے سال ہیں جب چین کو برطانوی تسلط چکھنا پرا۔ صدیوں تک چین ایشیا اور دنیا میں لیڈر تھا۔ لیکن پہلے برطانیہ اور پھر جاپان کے ہاتھوں ہونے والی شکست نے چین کی مرکزیت ختم کر دی۔ 1970 کی دہائی میں آخرکار چین نے باقی دنیا کے لئے کھلنا شروع کیا۔ اپنی تاریخ کو مستقبل کی توانائی کے لئے استعمال کیا۔ خاص طور پر ڈینگ شاؤپنگ کی قیادت میں اس نے تسلیم کیا کہ یہ مشکل میں ہے اور اسے اپنی عظمت بحال کرنے کے لئے باقی دنیا سے سیکھنا ہو گا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
لیکن دوسری طرف، روس یہ کام نہیں کر پایا۔ سوویت یونین کے ٹوٹ جانے کے بعد ہونے والی ذلت کو صحیح طور پر سمیٹ نہیں پایا۔ لارنس ہیریسن لکھتے ہیں کہ
“کمیونزم کا انہدام روس کے لئے ذلت آمیز تھا۔ یہ عظیم پاور نہیں رہا تھا اور اس نے اپنے سابق ساتھی اور مقابلہ کرنے والے ملک چین کو اپنے سے آگے جاتے دیکھا۔ روس کی برآمدات ویسی ہیں جیسے کسی تیسری دنیا کا ملک ہو۔ یہ قدرتی وسائل کی برآمد ہے جس میں سرِ فہرست گیس اور تیل ہیں۔ وہ ملک جس نے امریکہ کو خلائی پروگرام میں شکست دی تھی وہ ایک بھی ایس معیاری گاڑی بنانے کے قابل نہیں جسے برآمد کیا جا سکے۔ نہ ہی انفارمیشن ٹیکنالوجی کے انقلاب میں اس کا حصہ ہے”۔
روس نے وقار کی بحالی کے لئے درست انتخاب نہیں کئے۔ اپنے لوگوں کی صلاحیتوں کو اپنی عظمت کے لئے بروئے کار لانے کے بجائے شام کی خانہ جنگی میں کودنے یا پھر یوکرائن کو دھمکانے جیسے کام کرنے کا انتخاب کیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کئی مسلمان ممالک میں بھی ایسا ہی نظر آتا ہے۔ “ہماری حالت کسی اور کا قصور ہے” کا مائنڈسیٹ ملتا ہے۔ اسراء نعمانی لکھتی ہیں۔
“میری قوم میں شدت پسندی کی طرف جانے والے وہ ہیں جو پرانے زخم اٹھائے پھرتے ہیں۔ دہائیوں یا صدیوں پرانے۔ ان کے لئے یہ زخم ویسے ہی تکلیف دہ ہیں جیسے آج لگے ہوں۔ وہ ماضی کے چنندہ واقعات میں رہتے ہیں کیونکہ یہ انہیں اپنی ناکامیوں کا سامنا نہ کرنے میں مدد کرتا ہے۔ شدت پسندی کی کشش یہ ہے کہ اس میں معافی کوئی نہیں۔ زخموں کی یاد اور بدلے کی آگ ایسی کمیونیٹی کی بنیاد بن جاتی ہے”۔
لیکن ایسا ہر جگہ نہیں ہے۔ مسلمان دنیا میں تیونس کے حبیب بورقیبة اور دبئی کے شیخ محمد بن راشد الکمتوم جیسے قائد بھی رہے ہیں جنہوں نے کچھ اور راستہ لیا۔ تبدیلی کو اپنایا، سیکھا اور تعمیر کی۔
اور دنیا بھر میں ایسا ہی ہے۔ جنوب مشرقی ایشیا میں جہاں پر کمبوڈیا میں پول پوٹ تھے جنہوں نے خوفناک قتلِ عام کیا۔ وہاں پر سنگاپور کو بنا دینے والے لی کوآن ییو بھی۔
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...