جنوبی امریکیہ کے بارانی جنگلوں میں بندر پھل کھانے کے شوقین ہیں۔ درخت اس میں ان کی مدد رنگوں سے کرتے ہیں۔ پکا ہوا پھل شوخ رنگ کا ہے تا کہ بندر کو دور نظر آ جائے۔ بندر ان کا چھلکا اتار لیتے ہیں۔ اندر سے میٹھی اور شوگر سے لبریز تہہ ہے۔ پودوں کے لئے اس کو بنانے کا مقصد بندروں یا پرندوں کو لبھانا ہے۔ بندر اپنے ہاتھوں میں وہ چابکدستی نہیں رکھتے کہ صرف گودا کھا لیں اور بیج چھوڑ دیں۔ وہ بیج سمیت اسے کھا لیتے ہیں۔ گودا ہضم ہو جاتا ہے اور باقی آنتوں کے ذریعے نکل جاتا ہے۔ کئی ایسے بیج ہیں، وہ اس وقت تک نہیں اگ سکتے جب تک کسی جانور کی آنت سے نہ گزرے ہوں۔ آنت کے بیکٹریا بیج کی بیرونی تہہ اتار دیتے ہیں۔
چند گھنٹوں بعد بیج بندر کے فضلے کا حصہ ہوتے ہیں اور باہر آ چکے ہوتے ہیں۔ یہ ان کے لئے کھاد کا کام کرتا ہے۔ ان بیجوں سے پھوٹنے والے پودے بڑے ہو کر سخت لکڑی کے درخت بنتے ہیں۔ بنیادی طور پر بندر اپنی پسندیدہ خوراک کا باغ اگا رہے ہیں۔
سخت لکڑی کے یہ درخت ہوا سے کاربن جذب کر کے اسے سیکوسٹر کرنے کا قدرت کا سب سے بہترین اوزار ہیں۔ بڑے پرندے یا جنگل کے کچھوے بھی ایسے ہی طریقے سے بیج بکھیر کر درخت اگاتے ہیں۔
لیکن ایسے جانوروں کا شکار کیا جاتا ہے۔ اور کچھ انواع جنگلوں سے ختم ہو گئی ہیں۔ تو اس کا نتیجہ کیا ہے؟ بندر، کچھوے یا لمبی چونچ والے toucans مار دیں تو بیج بکھیرنے والے نہ رہے۔ اور جنگل میں درختوں کی اگلی نسل کم ہو گئی اور کاربن اکٹھا کرنے والے نہ رہے اور گلوبل وارمنگ میں اس باعث اضافہ ہو گیا۔ اور چند دہائیوں میں آپ کے پاس سمندر کی سطح بلند ہو گئی۔ اور بارشوں کی شدت تیز ہو گئی۔ تیز بارش میں سیلاب یا ساحل پر بلند ہونے والی لہروں کی ایک وجہ یہ ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جب آپ کے پاس پودوں اور جانوروں کا انتہائی متنوع سسٹم ہو جس میں ہر کوئی اپنے جین آگے بڑھا رہا ہو تو یہ کسی ایک نوع یا ایک بیج کے لئے صحتمند نہیں۔ لیکن توازن کا ساز اس سسٹم کو بہت مضبوط اور صحتمند بناتا ہے۔ یہ مقابلے اور تعاون کے انضمام سے آتا ہے۔ مختلف جاندار صرف ایک دوسرے کی خوراک نہیں بلکہ یہ ملکر ایسے حالات پیدا کرتے ہیں جس میں سب ملکر پھل پھول سکیں۔۔۔
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...