“وہ باقی نہیں بچتا جو طاقتور ہو بلکہ وہ جو خود کو بدلتے ماحول میں سب سے زیادہ ڈھال سکے”۔ یہ قول (غلط طور پر ) چارلس ڈارون سے منسوب ہے۔ لیکن زندگی کے ڈیزائن کے بارے میں اچھی بصیرت دیتا ہے۔
لیون میگیسن بھی کچھ ایسا لکھتے ہیں،
“تبدیلی قدرت کا ایک بنیادی قانون ہے۔ وقت افراد اور اداروں پر الگ طریقے سے اپنا اثر ڈالتا ہے۔ اس دنیا میں پنپتے وہ نہیں جو ذہین ہوں یا وہ جو مضبوط ہوں۔ بلکہ وہ جو ایڈجسٹ ہو سکیں اور خود کو بدل سکیں۔ اسی طرح، وہ تہذیبیں اور معاشرے پھلتے پھولتے ہیں جو بدلتے سماجی، سیاسی، روحانی اور فزیکل ماحول سے مطابقت رکھ سکیں”۔
ایک ابھرنے والا resilient معاشرہ بنانے کے لئے ہمارے پاس قدرت کے ڈیزائن کے طریقوں سے سیکھنے کو بہت کچھ ہے۔ سمندروں، فضا، جنگل، مٹی، پودوں اور جانوروں پر مبنی پیچیدہ نظام جو پچھلے چار ارب سال سے ہر قسم کے حالات میں ان گنت شاک جذب کرتا ہوا آگے بڑھ سکتا ہے۔
قدرت ہمارے لئے اس حوالے سے بہترین استاد ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
قدرت میں مسلسل تخلیق و جدت جاری ہے۔ ہمیشہ نت نئے کونے پُر ہو رہے ہوتے ہیں اور ہمیشہ تجربات جاری رہتے ہیں جن سے جانور، پودے اور دیگر جاندار باہم ارتقا کی ڈور پر محوِسفر رہتے ہیں۔
اگر کوئی جگہ خالی ہوتو کوئی پودا یا جانور اس سے فائدہ اٹھانے کے لئے adapt کر لے گا۔ ایک نوع دوسری کو ہڑپ کر لے گی۔ اور فاضل مادے سے کوئی اور پودا یا جانور خوراک یا کھاد حاصل کر لے گا۔ جدت اور انوکھی میوٹیشن ہر نئے موقع میں جگہ بناتی جائیں گے۔
ان میوٹیشن کا امتحان قدرت کا نظام کرتا ہے۔ ہر فِٹ شے اپنی جگہ بنا لے گی اور نظام کو مضبوط تر کر دے گی۔ اور جو فٹ نہ ہو، وہ حذف ہو جائے گی۔
قدرت کا نظام جامد نہیں ہے۔ یہ dogmatic نہیں ہے بلکہ اس کا متضاد ہے۔ اپنے مزاج میں یہ سبک رفتار، روایت شکن، کثیرالخیال، تجربوں کی شوقین، جدت پسند اور enterpreneurial ہے۔
ٹوم لوجوائے کہتے ہیں کہ “قدرت ایک بے چین موجد اور نڈر مہم جو ہے جو کوشش کرنے اور ناکامی سے بے خوف ہو۔ ہر ایکو سسٹم، ہر جاندار اور اس کا ہر حصہ مسائل کے سیٹ کا جواب ہے۔
قدرت کے نظام کی دینگ کر دینے والی کامیابی تنوع پسندی اور experiment کی صلاحیت ہے۔ جب آپ کے پاس بہت سے آئیڈیا ہوں تو پھر بہترین طریقہ ان کو آزما لینا ہے۔ اور اس کی مضبوطی اس میں ہے کہ کامیابی کی کوئی ایک خاص لگی بندھی تعریف نہیں ہے۔ حیاتیاتی تنوع کا مطلب یہ ہے کہ ہر کونا بھرا ہوا ہے اور اس سے پورا نظام توازن میں رہتا ہے”۔
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...