پیشکش: ایس ایم سلیم
(ماں اور بیٹا۔ ماں پر دیوانگی کے دورے پڑتے ہیں)
حسن: اماں اس مہینے سے میری تنخواہ بڑھ گئی ہے۔
ماں: (آواز میں دیوانگی کا اثر ہے) تو بہو لے آ
حسن: آ جائے گی بہو بھی، ابھی کیا جلدی ہے
ماں: سن لے کان کھول کے۔۔۔۔ اُس پھول بادشاہ زادی کی کلائی پکڑ کے کھینچ لا، لکادیپ مالدیپ سے
حسن: (متاثر ہو کر) اماں
ماں: اماں نہیں امین صاحب، قرق امین۔۔۔ ہاہاہا
حسن: پھر دورہ۔۔۔۔ ۔ دیوانگی کا دورہ
ماں: (پیار سے) میں ہوش میں ہوں میرے لعل۔ اچھا دیکھ، جس کے پاس امانت، وہ امین صاحب۔ ہے کہ نہیں۔ اسی لئے کہتی ہوں (پاگل پن میں) جال پھینک، لومڑی پھانس
حسن: بس کرو ماں
ماں: (گمبھیر آواز میں) سن، وہ آئے گی تو اُسے اپنی جگہ امین صاحب، بنا دوں گی۔ امانت اُس کے حوالے کر دوں گی، اور میں۔۔۔۔ ۔۔ میں شہر کی تمام کاروں کی ڈرائیور بن جاؤں گی۔۔۔ جتنی کاریں ہیں، سب میں چلاؤں گی۔۔۔ چھوٹی کاریں، بڑی کاریں، منجھلی کاریں۔۔۔۔ ہاہاہا۔ اور پھر۔۔۔۔ کچل دو۔۔۔۔ سب کو کچل دو۔۔۔۔ سڑکوں پر، گلیوں میں، فٹ پاتھ پر،۔۔۔۔ جب وہ تڑپ تڑپ کر ٹھنڈے ہو جائیں تو اُن کے خون بھرے کپڑے بیویوں کو دے دو کہ لو سنبھالو اپنی امانت۔۔۔۔ ہاہاہا
(ایکسیڈنٹ، میوزک کے ساتھ)
حسن: اماں اب اِن باتوں کو بھول جاؤ
اماں: (جھنجھلا کر) کیوں بھول جاؤں، تو کون ہوتا ہے مجھے نصیحتیں کرنے والا۔۔۔۔ ۔ اللہ میرے سہاگ کو سلامت رکھے۔ تو بیٹا نہیں سہاگ پڑا ہے، پڑا پڑا، چڑا چوں چوں چوں۔۔ ہاہاہا
حسن: اماں پندرہ سال پہلے ان کا ایکسیڈنٹ ہوا تھا، کار سے۔ وہ اب دنیا میں نہیں ہیں۔
اماں: وہ دنیا میں نہیں ہیں ،۔۔۔۔ ۔۔ تو پھر کون ہے دنیا میں۔۔۔۔ تو ہے ؟ میں ہوں ؟۔۔۔ یا وہ لمبی کار والا ہے۔۔۔۔ کون ہے، کون ہے اِس دنیا میں، جواب دے
حسن: (ٹھہر ٹھہر کر غصہ میں)وہ لمبی کار والا، اگر دنیا میں ہے تو ایک دن۔۔۔ ایک دن میرے ہاتھ اس کے ٹینٹوے تک ضرور پہنچیں گے۔
ماں: ٹینٹوا۔۔۔ ہاہاہا۔۔۔ ٹیں کر کے رہ جاؤ گے میرے چودہویں کے چاند جب وہ لمبی کار حملہ کرے گی جس کے ناخن تیز، دانت لمبے، زبان کھردری ہے۔
حسن: شاید
ماں: شاید شاید۔۔۔۔ شاید تو بڑا شکی ہے۔۔۔ (پیار سے) شک چھوڑ بیٹا، یقین پیدا کر۔۔۔ اب کبھی نہ کہنا وہ اِس دنیا میں نہیں ہیں، نہیں تو میں خفا ہو جاؤں گی۔
حسن: (عاجز آ کر) اماں تم کیا کہہ رہی ہو
ماں: سفید سفید دہی کے ساتھ سفید سفید چاول کھائیں گے۔ سفید سفید کپڑے پہن کر۔۔۔ پھر جمعہ پڑھنے جائیں گے تمھارے ابا۔۔۔۔ ۔ مگر آج میں انھیں رنگین جوڑا پہناؤں گی۔۔۔ لال لال پھولوں والے کپڑے۔۔۔۔ رک جا، ابھی لاتی ہوں بکس میں سے نکال کے۔۔۔۔ (جانے لگتی ہے)
حسن: (ماں کو روکنے کے لئے) بکس میں تالا پڑا ہوا ہے، اس کی چابی میرے پاس ہے، بیٹھ جائیے اور مجھے دو گھڑی چین سے رہنے دیجئے۔
ماں: (واپس آ جاتی ہے) چابی تمہارے پاس ہے ،۔۔۔۔ (سوچتے ہوئے) تم اگر کھو گئے، تو تالا کیسے کھلے گا۔۔۔۔ تمھارے ابا کتنے تالوں کی چابیاں لے کر کھو گئے، اب وہ سب تالے اپنے اپنے بکس میں لٹکے ہوئے چیخ رہے ہیں۔۔۔۔ ہمیں کھولو۔۔۔ ہمیں کھولو۔۔۔۔ کھولو، کھولو۔۔۔ کوئی ہے جو اب تالوں کو کھول دے ہاہاہا۔۔۔۔ کوئی ہے جو سب تالوں کو کھول دے ہاہاہا۔۔۔۔
(میوزک)
قومی ترانہ۔۔۔۔ پس منظر میں بچوں کا شور
(لب پہ آتی ہے دعا بن کے تمنا میری۔۔ اسکول میں بچوں کی دعا۔۔ دو منٹ)
ماسٹر: (دعا کے بعد) بچو، تمھاری معصوم دعاؤں میں، مجھ گنہگار کی دعائیں بھی شامل ہیں۔ خدا تمہارے دلوں کو علم کی روشنی عطا فرمائے۔ تمھیں صراطِ مستقیم پر چلنے کی توفیق دے، تم نیکی کا نمونہ بنو، اور انسانیت کی مثال بنو۔۔ قوم تم پر ناز کرے، وطن تم پر ناز کرے۔۔۔۔ ۔۔ آج اِس اسکول میں میری ملازمت کا آخری دن ہے، کل سے نئے ہیڈ ماسٹر صاحب آئیں گے، جس طرح تم میرا ادب کرتے تھے۔ اُسی طرح، بلکہ اس سے زیادہ، اُن کی عزت کرنا اور ان کے ہر حکم کو ماننا۔ اچھا، اب تم اپنی اپنی کلاس میں جا سکتے ہو۔
(لڑکے کلاسوں کی طرف جاتے ہیں، قدموں کی آوازیں، اس دوران ہیڈ ماسٹر اپنے دفتر میں پہنچ جاتا ہے۔ اب گفتگو دفتر میں ہو رہی ہے)
ہیڈ ماسٹر: آہ یہ اسکول کا دفتر۔۔۔۔ پچیس سال سے اسکول کو اپنی دنیا اور اسکول کے اس دفتر کو اپنی دنیا کا مرکز سمجھتا رہا ہوں۔ درس و تدریس کو میں نے مقدس فرض جانا۔ یہ فرض میرے لئے عبادت سے کم نہ تھا۔ خدا کا شکر ہے کہ اس فرض کو انجام دینے میں، اپنی طرف سے میں نے کبھی کوتاہی نہیں کی۔ (اچانک چپراسی سے مخاطب ہوتا ہے)۔۔۔ اور بابا تم۔۔۔۔ تم کتنی مدت سے میرے ساتھ ہو۔۔۔۔ بیس سال۔۔۔۔ ۔ سائنسی عہد کے بیس سال۔۔۔۔ دنیا کہاں سے کہاں پہنچ گئی۔۔۔۔ لوگ کہتے ہیں مشینوں کے اس دور میں انسان بھی جذبے اور احساس سے خالی مشین بن کر رہ گیا ہے۔۔۔۔ ۔۔ انھیں نہیں معلوم بابا کہ آج کی دنیا میں بھی، تم جیسے بے شمار انسان موجود ہیں، جو معاشرے میں کتنی ہی چھوٹی حیثیت رکھتے ہوں، مگر اپنی جگہ گھنے درخت ہوتے ہیں، جنک چھاؤں سب کے لئے ہوتی ہے، جن کا سایہ سب کو پناہ دیتا ہے۔۔۔ اوہ آنسو !۔۔۔۔ ۔ تمھاری آنکھوں میں آنسو کیوں ہیں، تمھیں خوش ہونا چاہئیے کہ بیس سال تک ہم نے ایک دوسرے کو شکایت کا موقع نہیں دیا۔ تم چپراسی کی طرح نہیں، بھائی کی طرح میرے ساتھ رہے۔
بابا: جو در اصل سیٹھ کریم ہے مگر حلیہ بدل کر اسکول میں چپراسی کا کام بھی کرتا ہے) ہجور
ہیڈ ماسٹر: آنسو پونچھ لو بابا۔۔ میں رخصت ہوتے ہوئے تم سب کے چہروں پر، اسکول کے در و دیوار پر، یہاں کے چپے چپے پر۔۔۔۔ ۔ خوشی کا اُجالا دیکھنا چاہتا ہوں۔
بابا: آپ کی مہربانی ساب۔۔۔۔ ۔ اپنے سے کوئی غلطی ہوا ہو تو معاف کر دینا
ہیڈ ماسٹر: میں نے معاف کیا۔۔۔ میرے خدا نے معاف کیا۔
بابا: بڑے ماسٹر ساب
ہیڈ ماسٹر: ہاں بابا
بابا: میرے کی ایک بات مان لو
ہیڈ ماسٹر: کیا بات ہے۔۔ کہو
بابا: یہ۔۔۔ یہ۔۔۔۔ آپ کے لئے
ہیڈ ماسٹر: یہ کیا۔۔۔ نہیں۔۔ نہیں
بابا: ساب
ہیڈ ماسٹر: یہ نہیں ہو سکتا، نہیں ہو سکتا۔۔۔ میں کہتا ہوں، نہیں نہیں۔۔۔
بابا: میری خوشی کے لئے ماسٹر ساب
ہیڈ ماسٹر: مگر بابا، یہ گھڑی جو تم مجھے تحفہ میں دینی چاہتے ہو۔۔۔ یہ وقت دیکھنے کے لئے ہے۔۔۔ ہے نا
بابا: ہاں ساب
ہیڈ ماسٹر: اب مجھے وقت دیکھنے کیا کیا ضرورت رہی۔ بلکہ یوں سمجھو کہ وقت کو میری ضرورت نہیں رہی۔۔۔ نہیں میں یہ گھڑی نہیں لوں گا۔
بابا: ساب میں تو چپراسی ہوں۔۔۔۔ ۔ بے پڑھا لکھا۔۔۔۔ مگر ٹیم کے لئے ایک بات میرے کو معلوم ہے۔۔۔ یہ حساب کتاب کا بڑا پکا ہے۔۔۔ حساب لئے بغیر کسی کو نہیں چھوڑتا۔ نوکری چھوڑنے کے بعد بھی ساب آپ کو ایک ایک پل دیکھ بھال کر خرچ کرنا ہو گا۔ آپ کا ٹیم بہت قیمتی ہے۔
ہیڈ ماسٹر: اور یہ گھڑی جو تم لائے ہو، یہ بھی بہت قیمتی معلوم ہوتی ہے۔
بابا: میرے کو کم پیسوں میں مل گئی۔ ڈیلر میری پہچان کا ہے۔
ہیڈ ماسٹر: جب ہماری بیٹی کی شادی ہوئی تھی۔ اُس وقت بھی تم نے۔۔۔۔ ۔ میں ابھی تک اُس کی قیمت نہیں دے سکا۔
بابا: آپ اُس کا خیال مت کر و ساب
ہیڈ ماسٹر: اسکول سے رخصت ہوتے ہوئے آج ہمیں اپنا ایک بچھڑا ہوا ساتھی بھی بہت یاد آ رہا ہے۔۔۔۔ وہ چپراسی، جس کی جگہ تم ملازم ہوئے تھے، آج سے بیس سال پہلے۔۔ رحمت علی چپراسی، معلوم نہیں کس ظالم کی کار نے اُسے کچل دیا تھا۔ کچھ پتہ ہی نہ چلا، اچھا خاصا تندرست و توانا تھا۔۔ (ایکسیڈنٹ میوزک)۔۔۔۔ کہاں چلے ؟
بابا: (جاتے ہوئے) ایک کام یاد آ گیا ساب
ہیڈ ماسٹر: (خود کلامی) تعجب ہے۔۔۔ کئی بار میں نے دیکھا ہے، جب بھی مرحوم رحمت علی چپراسی کا ذکر نکلتا ہے، بابا کسی نہ کسی بہانے سے اُٹھ کر چلے جاتے ہیں۔۔۔ نرم دل آدمی ہیں، ممکن ہے تکلیف ہوتی ہو اُس مرحوم کے ذکر سے۔۔۔۔ ۔۔۔
(میوزک)
(فیکٹری کے دفتر میں)
(پس منظر میں فیکٹری کی آوازیں، سائرن)
حسن: موسم آج سہانا ہے
رضیہ: سہانا موسم ؟
حسن: کالی کالی گھٹائیں گھِر گھرِ کے آ رہی ہیں۔
رضیہ: یہ آفس ہے حسن صاحب۔۔۔ ہاتھ کیوں روک لیا
حسن: ہاتھ نہیں روکا۔۔۔ کھا رہا ہوں۔۔۔۔ جی تو یہ آفس ہے
رضیہ: میں نے اس لئے یاد دلایا کہ گھٹاؤں کے بعد لوگ پھولوں، تتلیوں، صنوبروں، چناروں، ندیوں اور جھیلوں کی بات کرتے ہیں، اور آخر میں یہ تمام خوبصورتیاں آنکھوں کی گہرائی میں ڈبو دی جاتی ہیں۔۔۔۔ ۔۔ یہ مچھلی میری چھوٹی بہن نے تلی ہے، لیجئے نا !
حسن: اول تو میرا یہ ارادہ نہیں تھا، اور اگر ہوتا بھی تو۔۔۔ کچھ ایسا نا مناسب تو نہ تھا۔
رضیہ: بالکل نامناسب
حسن: کیوں رضیہ۔۔۔ ٹو میٹو کیچپ لاجواب ہے
رضیہ: رضیہ نہیں، رضیہ خان
حسن: اوہ بے تکلفی کی معافی چاہتا ہوں۔۔۔۔ ۔ میں پوچھ رہا تھا، نامناسب کیوں ؟
رضیہ: اِس لئے کہ یہ ایک صنعتی شہر ہے، اور بیسویں صدی کی سات دہائیاں گزر چکی ہیں۔۔۔۔ آپ کو شامی کباب بہت پسند ہیں، ہفتے میں کم سے کم چار دن
حسن: جو مل جاتا ہے، منگا لیتا ہوں۔۔۔۔ ۔ مگر یہ صنعتی شہر اور بیسویں صدی ؟
رضیہ: میں ایک فلیٹ میں رہتی ہوں، جو میرا نہیں ہے
حسن: ہاں
رضیہ: تم ایک کوارٹر میں رہتے ہو، جو کرائے کا ہے
حسن: اچھا۔۔۔ پھر۔۔۔
رضیہ: پھر۔۔۔۔ پھر یہ کہ فلیٹوں اور کوارٹروں میں تتلیاں نہیں ہوتیں
حسن: مگر ارمانوں کے پھول تو ہر کہیں کھِلتے ہیں، امنگوں کی تتلیاں تو ہر جگہ۔۔۔۔ شامی کباب لیجئے نا۔۔۔
رضیہ: ہاں یہ تو بتائیے اب آپ کی امی کا کیا حال ہے۔۔ در اصل صبح سے میں سوچ رہی تھی۔۔۔ مگر ٹائپ کا اتنا کام تھا کہ۔۔۔۔ اب تین بجے جب سیٹھ صاحب چلے گئے۔۔۔ اور ہم لوگ کھانا کھانے بیٹھے تو۔۔۔ نئے ڈاکٹر کو دکھایا ؟
حسن: تین بجے تک کھانے کا انتظار کرنا۔۔۔ مجھے تو سخت ناگوار ہے
رضیہ: تین بجے کی کوئی پابندی تو نہیں۔۔۔ ہم لوگ تو اخلاقاً۔۔۔ میرا مطلب ہے کریم بھائی تین بجے دفتر چھوڑ دیتے ہیں۔۔۔ اس لئے ہم۔۔۔۔ ۔
حسن: کیا سبب ہے کہ سیٹھ تین بجتے ہی دفتر سے چل دیتے ہیں
رضیہ: یہ تو ایسی ہی بات ہوئی جیسے کوئی پوچھے۔۔۔ سورج روزانہ صبح کو کیوں نکلتا ہے۔
حسن: اس کا سبب تو معلوم ہے۔۔۔ زمین کی گردش
رضیہ: زمین ہی کی طرح، زمین پر بسنے والے بھی اپنی اپنی گردش میں رہتے ہیں۔ ہو گا کوئی سبب، ہمیں کیا۔۔ یہ روٹی دیکھئے کیسی گول ہے۔ زمین کی طرح۔۔ میری چھوٹی بہن نے پکائی ہے۔
حسن: میں جاننا چاہتا ہوں کہ وہ کہاں جاتے ہیں
رضیہ: ہمیں صرف یہ جاننا چاہئیے کہ وہ ایک اچھے باس ہیں، چھٹی کو کبھی منع نہیں کرتے۔ تنخواہ وقت پر دیتے ہیں، ایڈوانس مانگو تو اس کا بھی انتظام ہو جاتا ہے۔
حسن: یہ تو ہے۔ مگر وہ مجھے کچھ پراسرار معلوم ہوتے ہیں۔
رضیہ: تمھیں پراسرار اور مجھے نیک دل معلوم ہوتے ہیں۔ فیکٹری سے لے کر دفتر تک۔ کسی کو شکایت کا کوئی موقع نہیں دیتے، ہر کوئی ان کی تعریف کرتا ہے۔
حسن: یہ تو مجھے بھی معلوم ہے۔ مگر میں کچھ اور بھی معلوم کرنا چاہتا ہوں۔۔۔ گلاس دیجئے۔
رضیہ: آج کھانا کافی دیر تک کھایا گیا۔
حسن: لیکن مس رضیہ خان۔۔۔۔ ۔۔ وہ پھولوں اور تتلیوں کی بات ادھوری ہی رہ گئی۔
رضیہ: جی نہیں، اس بات نے کھانے میں ٹومیٹو کیچپ کی کمی پوری کی ہے۔
(دونوں ہنستے ہیں)
(اسکول میں)
(انٹر ویل ہوا ہے۔ بچے کلاسوں سے نکل رہے ہیں، باتیں کرنے اور ہنسنے کی آوازیں۔۔ کریم بھائی بھی وہاں موجود ہے)
ایک بچہ: تین بج گئے۔ کھیل کی چھٹی۔۔۔۔ کھیل کی چھٹی۔۔۔ (کریم کی ہنسی، دور سے)
(دھیما شور)
کوئی بچہ: بابا ہمارا چاکلیٹ
کریم(بابا): یہ لو منے
(دھیما شور)
کوئی بچہ: بابا
کریم: منے
(دھیما شور)
کریم: دھوپ میں نہ جاؤ
(دھیما شور)
کریم: پھر ہم نہیں بولے گا۔۔۔ ناراض ہو جائے گا
(دھیما شور)
کوئی بچہ: پٹے والا بابا
کریم: (ہنستا ہے) تم ٹھیک بولا، ٹھیک بولا
(دھیما شور)
کریم: ہم پٹے والا ہے
کوئی بچہ: نہیں بابا، بابا ہیں آپ
(دھیما شور)
(کریم بھائی ہنس رہا ہے، دو تین بچے بھی ہنس رہے ہیں)
(میوزک)
(یہ گفتگو فیکٹری میں ہو رہی ہے۔ تھوڑی دور سے ٹھہر ٹھہر کر مشینیں چلنے کی آواز آتی رہتی ہے۔ مگر اس طرح کہ ڈائیلاگ صاف سنائی دیتے ہیں)
خواجہ: کریم بھائی گئے مسٹر حسن
حسن: سیٹھ گیا یا نہیں۔۔۔ مجھ سے کیوں پوچھتے ہو، کلاک سے پوچھو
خواجہ: (ہنستا ہے) ہاں ٹھیک ہی تو کہتے ہو۔ آں، تین بج کر دو منٹ اور تیس سیکنڈ ہوئے ہیں۔۔۔۔ دو منٹ تیس سیکنڈ پہلے وہ یقیناً چلے گئے ہوں گے۔
(دونوں ہنستے ہیں)
تین بجے کے بعد وہ، فیکٹری کے آفس میں ایک لمحہ بھی نہیں ٹھہرتے۔
حسن: کیسا ہی ارجنٹ کام ہو، کتنا ہی نقصان ہو جائے، مگر گھڑی کی سوئی تین کے ہند سے پر آئی اور۔۔۔۔ ۔
خواجہ: اور وہ۔۔۔۔ لیفٹ رائٹ، لیفٹ رائیٹ۔۔۔۔ trot, trot, trot
۔۔۔۔ سرپٹ (ہنسی)
حسن: صورت سے بھی گھوڑا ہی معلوم ہوتا ہے۔
خواجہ: نو پلیز حسن۔۔۔ یہ تم زیادتی کر رہے ہو۔
حسن: یوں ہی ہنسی میں ایک بات کہی تھی۔ میرا یہ مطلب تھوڑا ہی تھا۔
خواجہ: اف یو ڈونٹ مائینڈ حسن۔۔۔ کبھی کبھی۔۔۔ عام سی بات چیت میں۔۔۔ کریم بھائی کے لئے تمھاری زبان سے، ایک نہ ایک ایسی۔۔۔ میں تو کہوں گا۔۔۔۔ ایسی ظالمانہ بات نکل جاتی ہے کہ۔۔۔۔ کہ میں تو لرز جاتا ہوں۔
حسن: وہم ہے تمھارا
خواجہ: وہم نہیں ہے۔۔۔۔ میں نفسیات کا طالب علم رہ چکا ہوں اور جاسوسی کی کتابیں شوق سے پڑھتا ہوں۔
حسن: چھوڑو بھی یار۔۔۔۔ اور سناؤ دنیا میں کیا ہو رہا ہے۔
خواجہ: گڑ بڑ نہ کرو۔۔ صاف صاف بتاؤ، تمھارا لاشعور سیٹھ کریم بھائی سے نفرت کیوں کرتا ہے۔
حسن: لاشعور ہی سے پوچھو
(دونوں ہنستے ہیں)
خواجہ: تم نہیں کھلو گے۔۔۔ خیر جانے دو۔۔۔ معاف کیا۔۔ پکچر کب دکھا رہے ہو
حسن: امتحانوں کے بعد
خواجہ: امتحان تو تمھارے لئے، ہر سال، ہملٹ کے باپ کا بھوت بن کر آتا ہے۔ تفریح بھی کیا کرو۔ زندگی کو پہچانو۔۔۔ تبسم، مسکراہٹ، ہنسی، قہقہہ، ٹھٹھا
(خواجہ ہنستا ہے، قہقہہ لگاتا ہے، ٹھٹھا مارتا ہے)
حسن: (گہرا سانس لے کر) کوشش کروں گا
خواجہ: کوشش ضرور کرو۔ مائی ڈئیر ڈیفوڈل۔۔۔ نہیں تو ہیری ایپ بن کے رہ جاؤ گے۔ زندگی کو دوڑنے دو۔۔۔ trot, trot trot
حسن: وہ زندگی جسے صحراؤں میں سائیکلون، جنگلوں میں آگ کے شعلے، پہاڑوں پر برف کے طوفان، پانی میں بھیانک بھنور، شہروں میں زلزلے ملیں، وہ زندگی تیز نہیں دوڑ سکتی۔ ایسی زندگی کے لئے چلنا، بلکہ رینگنا بھی دشوار ہے خواجہ صاحب۔
خواجہ: تمھیں ایک ہی زندگی ملی ہے۔ دوبارہ اس دنیا میں نہیں آؤ گے۔
حسن: میں سوچتا ہوں
خواجہ: سوچنا چھوڑ دو۔۔۔ زندگی کی گھوڑی کے منہ میں سوچ کی لگام نہ دو۔ اسے ہرڈل ریس میں حصہ لینے دو۔ پھلانگ جائے گی۔۔ ہر رکاوٹ کو پھلانگ جائے گی۔۔ زندگی کی خوبصورت گھوڑی۔۔۔ trot trot trot
حسن: خبطی ہے۔۔۔۔ چلوں گھر۔۔۔ ماں اکیلی ہو گی۔
(میوزک)
ماں: تو نے کہا تھا تیری تنخواہ بڑھ گئی
حسن: ہاں اماں
ماں: میری تنخواہ بھی بڑھ گئی۔ اب کے سات روپے زیادہ آئے ہیں۔
حسن: منی آرڈر
ماں: ہاں تیرے ابا نے قبرستان کے ڈاک خانے سے بھیجا ہے۔
حسن: (سوچتے ہوئے) جانے کون ہر مہینے یہ منی آرڈر۔۔۔ جب سے ابا مرے ہیں
ماں: اے میں نے کہا منہ سنبھال کے بات کر لڑکے۔۔ لو اور سنو کہتا ہے۔۔۔ جب سے ابا مرے ہیں۔۔ آئیں گے تو دیکھنا کیسی شکایت کرتی ہوں۔
حسن: (خود سے) اپنا فرضی نام اور جھوٹا پتہ لکھتا ہے۔۔ معلوم نہیں کون ہے۔ اور ہمارے گھر سے کیا تعلق ہے اس کا۔۔
ماں: تجھے نہیں معلوم۔۔۔ مجھے معلوم ہے۔۔۔ وہ تیرے ابو ہیں۔
حسن: ان کی تو ہڈیاں بھی اب قبر میں باقی نہ ہوں گی۔
ماں: تو بڑا نادان ہے میرے بیٹے۔۔ دیکھتا نہیں کیسے کیسے ننھے منے، پھول سے بچے وہاں جاتے ہیں، ماؤں کی گود سونی کر کے۔۔۔ جاتے ہیں یا نہیں۔۔۔ بولتا کیوں نہیں
حسن: ہاں اماں
ماں: ننھے منّوں کا اسکول ہے وہاں۔۔۔۔ تیرے ابا نے نوکری کر لی ہے
حسن: اتنی پابندی سے ہر مہینے۔۔۔ کون ہے۔۔ وہ کون ہے۔۔۔ امی سوچئے نا
ماں: تیرے ابا ہیں
حسن: کئی بار پوسٹ آفس سے پتہ چلانے کی کوشش کی کہ وہ کون ہے۔۔۔ مگر
ماں: وہ اور ہی طرح کا ڈاک خانہ ہے میرے لعل۔۔ ہاہاہا۔۔ تجھے نظر نہیں آ سکتا۔۔۔ نظر مجھے بھی نہیں آتا۔۔۔ مگر میں جانتی ہوں۔۔۔ قبرستان کا بھی ڈاک خانہ ہے۔۔۔ وہاں سے بھی ڈاک آتی ہے۔۔ ہاہاہا۔۔۔ اتنی تیز، اتنی تیز۔۔ کہ جہاں سے گزرتی ہے، پیڑ اکھڑ جاتے ہیں۔۔۔ مکان کھنڈر بن جاتے ہیں۔۔۔ چولہے بھڑک اٹھتے ہیں۔۔ آگ، آندھی، سیلاب، شور۔۔۔ ہاہاہا
(ایکسیڈنٹ کی آواز)
حسن: امی
ماں: پھر وہاں ایک لمبی کار آتی ہے۔۔۔ توڑتی پھوڑتی اور کچلتی ہوئی۔۔ ہاہاہا
(میوزک)
٭٭
(فیکٹری کے دفتر میں)
حسن: بچوں کی سی باتیں کرتے ہو تم دونوں
خواجہ: اس میں کیا جھوٹ ہے
رضیہ: اپنی طرف سے تو ہم نے کچھ نہیں کہا
حسن: مگر تم نے کوئی ایسی بات بھی نہیں کہی۔۔ جو مجھے پہلے سے معلوم نہ ہو۔ کیا میں نہیں جانتا کہ ظاہر میں وہ بہت اچھا آدمی ہے۔۔۔ اتنا اچھا کہ سبھی اس کی تعریف کرتے ہیں۔ بزنس میں کبھی بے ایمانی نہیں کرتا، دھوکہ نہیں دیتا، انکم ٹیکس نہیں بچاتا۔ یہ بھی میں جانتا ہوں کہ وہ ہم سب کے ساتھ اچھا سلوک کرتا ہے، مگر
رضیہ: مگر کیا
حسن: جتنا اچھا وہ ہے۔۔۔ آدمی اتنا اچھا ہو ہی نہیں سکتا۔
خواجہ: Lovely۔۔۔ بہت خوب
رضیہ: آدمی اتنا اچھا کیوں نہیں ہو سکتا حسن صاحب
حسن: ہر آدمی میں ایک بھیڑیا چھپا ہوتا ہے۔۔۔ جو چھپا رہنے کے باوجود۔۔ کبھی کبھی منہ پھاڑتا ہے۔۔ دانت دکھاتا ہے۔۔۔ غراتا ہے۔۔۔ موقع ملے تو پنجہ بھی مارتا ہے۔۔ سیٹھ کریم کا بھیڑیا پنجہ کیوں نہیں مارتا۔
خواجہ: اس نے اپنے بھیڑئیے کو مار ڈالا ہو گا مائی ڈئیر ڈیفوڈل
حسن: بھیڑیا کوئی نازک تتلی نہیں، جسے آپ چٹکیوں میں مسل ڈالیں، وہ کسی کے مارنے سے نہیں مرتا۔۔ وہ مرتے مرتے آدمی میں سے نکل کر بھی حملہ کر سکتا ہے۔
رضیہ: میں انسان سے نا امید نہیں
حسن: کون ہے انسان اِس دنیا میں۔۔۔ جب میرے باپ کو۔۔ جو ایک غریب آدمی تھا۔۔۔ ایک چپراسی۔۔۔ اسکول کا چپراسی۔۔۔ جب کسی نے اس کے سینے پر کار چڑھائی۔۔ شاید وہ کسی بار سے نکل کر اسٹیرنگ پر بیٹھا ہو گا۔ وہ میرے باپ کو خون کے تالاب میں تڑپتا ہوا چھوڑ کر بھاگا تو تمھارے انسان کہاں تھے، ان کی انسانیت کہاں سور ہی تھی۔
خواجہ: ایکسکیوز می حسن، ایکسیڈنٹ، ایکسیڈنٹ تو انسان کا مقدر ہے۔
حسن: (اپنے ہی خیالات میں) اس نے میرے باپ کو مار ڈالا، اس دن سے میری ماں بیمار ہے، اس پر پاگل پن کے دورے پڑتے ہیں۔ اُس کے پاس وہ خون آلود کپڑے محفوظ ہیں۔۔ انھیں دیکھتی ہے اور اپنے جیون ساتھی کی واپسی کا انتظار کرتی ہے۔ جو کبھی واپس نہیں آئے گا۔ کبھی نہیں۔ کبھی نہیں۔
خواجہ: تمھاری زندگی بڑی المناک ہے، مگر
حسن: سنتا ہی نہیں) میں نے پاگل ماں کے سائے میں بچپن گزارا ہے۔۔ میں نے بہت سے دروازوں پر ناکام دستک دی ہے۔۔۔ میری انا اپنے آپ کو کھاتی رہی ہے۔۔۔ جنھیں تم انسان کہتے ہو، میں انھیں پہچانتا ہوں۔۔ اچھی طرح پہچانتا ہوں۔
رضیہ: تو کیا تم اُسے بھی انسان نہیں سمجھتے
حسن: کسے
رضیہ: جو ہر مہینے تمھارے گھر منی آرڈر بھیجتا ہے، ایک مدت ہو گئی اور آج تک اس نے اپنا نام بھی ظاہر نہیں کیا۔۔۔ حسن صاحب دنیا کبھی اچھے لوگوں سے خالی نہیں رہی۔
حسن: اچھے لوگ۔۔۔ معلوم نہیں وہ کون ہے، اور پردے کے پیچھے رہ کر کیا کھیل، کھیل رہا ہے۔ جس دن پردہ اٹھے گا، تو تم دیکھو گے کہ وہ ایک اژدہا ہے۔ بہت بڑا پھنکارتا ہوا اژدہا۔۔۔ اور شاید اُس دن۔۔ اُس دن مجھے کوئی بہت بڑی قیمت ادا کرنی پڑے گی۔ (سائرن)
رضیہ: چلئیے اٹھیے۔ دوسری شفٹ شروع ہو گئی۔
(میوزک)
٭٭
(بچوں کا دھیما شور۔ اسکول میں بچے کھیل رہے ہیں)
بابا: منے
بچہ: بابا
بابا: تمھارا قمیص پر سیاہی کا دھبہ کیوں
بچہ: انور نے۔۔۔ بہت بُرا ہے انور
بابا: نہیں منے، کسی کو بُرا نہیں بولو۔۔۔ جو پڑھتا ہے، وہ سب اچھا ہوتا ہے
بچہ: بابا انور بُرا ہے، اس نے میری قمیص پر سیاہی۔۔۔
بابا: اب اُسے بُرا بولے گا تم تو ہم تمھارے سے بات نہیں کرے گا۔
منا: بابا
بابا: بولو۔۔۔ انور اچھا ہے
منا: انور اچھا ہے
بابا: شاباش، تم بہت اچھا منا ہے۔ بابا کا بات مانتا ہے
منا: انور بھی اچھا ہے۔۔ آپ بھی اچھے ہیں۔
بابا: نہیں ہم اچھا نہیں ہے۔۔۔ اچھا کیسے ہو گا، ہم پڑھیلا جو نہیں ہے۔۔۔ ہم جاہل ہے۔۔ ایک دم جاہل۔۔ ہمارے کو اچھا نہیں بولو۔۔۔ اچھا وہ لوگ ہوتا ہے جو خوب بہت سا پڑھتا ہے۔۔ پڑھا لکھا آدمی لوگ اچھا ہوتا ہے۔
(میوزک)
٭٭
(فیکٹری کے دفتر میں)
رضیہ: تین بج گئے حسن صاحب
حسن: آج میں نے کھانا نہیں منگایا ہے
رضیہ: تو کیا ہوا۔۔ یہ دیکھئے، میری چھوٹی بہت نے کتنا بہت سا کھانا بھیج دیا ہے، ہم دونوں کے لئے بہت ہو گا۔ آئیے آئیے
(قدموں کی آواز)
حسن: واقعی یہ تو بہت ہے۔۔۔ اور بہت طرح کا ہے۔
رضیہ: وہ بڑی سلیقہ مند لڑکی ہے۔ شروع کیجئے۔
حسن: ہاں ہاں۔۔ آپ بھی لیجئے۔
(مختصر وقفہ)
آج تو کریم بھائی دس منٹ پہلے ہی چلے گئے۔
رضیہ: تکلف نہ کیجئے، کھاتے رہئیے۔
حسن: تکلف نہیں کر رہا۔۔ سوچ رہا ہوں وہ دس منٹ پہلے کیوں چلے گئے۔
رضیہ ؛ کوئی کام ہو گا
حسن: یہ کریلے اور چنے کی دال
رضیہ ؛ ہاں زبیدہ نے پکائے ہیں، میری چھوٹی بہن نے، خاندان بھر میں مشہور ہے وہ کھانے پکانے کے لئے۔ اور کھانا پکانا ہی کیا، سینے پرونے میں بھی دور دور تک اس کا جواب نہیں۔
حسن: کریم بھائی تین بجے سے پہلے تو جا سکتا ہے، مگر تین بجے کے بعد جاتے ہوئے اُسے آج تک نہیں دیکھا۔
رضیہ: ڈاکٹر نے کیا کہا آپ کی امی کے لئے
حسن: انھوں نے کہا کیس بہت پرانا ہے، کوئی خاص امید نہیں
رضیہ: واہ امید کیوں نہیں۔۔۔۔ ایک اور بہت اچھے ڈاکٹر ہیں، میں ان سے بات کروں گی۔۔ مگر امتحانوں کے بعد
حسن: آپ کے امتحان کب شروع ہو رہے ہیں۔
رضیہ: آپ کے تو سترہ تاریخ سے ہیں اس مہینے کی۔
حسن: نہیں، ملتوی ہو گئے۔ نئی تاریخ کا ابھی اعلان نہیں ہوا۔ مگر میرا ارادہ اس سال امتحان دینے کا نہیں ہے۔
رضیہ: ہمارا پہلا پیپر بیس کو ہے۔ مگر چھٹی میں پندرہ سے لوں گی۔ کریم بھائی سے کہہ دیا ہے میں نے۔
حسن: اس کا مطلب یہ ہوا کہ کوئی بیس دن آپ سے ملاقات نہ ہو سکے گی۔
رضیہ: بیس نہیں، تئیس 23 دن
حسن: تئیس 23 بہت ہوتے ہیں، آپ بہت یاد آئیں گی۔
رضیہ: (حیرت سے) جی
حسن: میرا مطلب ہے کھانے کے وقت۔۔۔ جی وہ، آپ نہیں، آپ کا کھانا بہت یاد آئے گا۔۔۔ چاول، چاول نکالئے۔
رضیہ ؛ تمھیں یہ سن کر تعجب ہو گا کہ دس طرح کے چاول پکانے آتے ہیں زبیدہ کو۔۔۔ میری چھوٹی بہن کو
حسن: ان کی مدد سے آپ کھانا پکانے پر ریسرچ کر سکتی ہیں۔۔ ڈاکٹریٹ مل جائے گی۔ کسی یونیورسٹی سے۔
رضیہ: وہ جس گھر میں بیاہ کے جائے گی، اسے جنت بنا دے گی۔
حسن: آہا۔ آج تو آپ ثمرِ بہشت بھی لائی ہیں۔
رضیہ: ہاں آم ہیں۔۔ لو کاٹو۔۔ وہی لائی تھی۔۔ اُس کا خریدا ہوا آم کبھی کھٹا نہیں نکلتا
حسن: بڑی خوبیوں کی مالک ہیں آپ کی چھوٹی بہن
رضیہ: تم کہو تو اماں سے بات کروں، وہ میری بات نہیں ٹالیں گی
حسن: (حیرت سے) کیا بات
رضیہ: یہی زبیدہ کے سلسلے میں، تمھارے لیے۔
حسن: مس رضیہ
رضیہ: کیوں، کیا ہوا
حسن: یہ تم کیا کہہ رہی ہو رضیہ۔۔ مجھے تو تم سے۔۔۔ میں تو تمھیں۔۔۔ رضیہ میں تو تمھیں جان و دل سے
رضیہ: (ہنس کر) tomato ketchup
حسن: یہ ہنسی کا نہیں، فیصلے کا وقت ہے رضیہ۔۔۔ میں اکیلا ہوں، بالکل اکیلا، تنہا۔۔۔ تنہائی کا شکار۔۔۔ ایک پتہ، برگِ آوارہ، کسی شاخ کی آغوش میں جس کے لئے جگہ نہیں۔ میں سایوں کے ہجوم میں کھوئی ہوئی ایک پرچھائیں ہوں۔۔۔ مجھے انسانوں پر اعتماد نہیں۔۔ مگر تم۔۔۔ تم میرے خوابوں کی چاندنی۔۔۔ تم میرے خیالوں کی روشنی۔۔۔ رضیہ
رضیہ: دھوکہ۔۔۔ فریب
حسن: یہ فریب ہے تو بہت حسین فریب ہے۔۔ آؤ اس دھوکے میں آ جائیں، اس فریب میں مبتلا ہو جائیں
رضیہ: میں فریب میں مبتلا ہو جاؤں، رومینٹک بن جاؤں۔
(کھسیانی ہنسی)
سنو مسٹر! میرا باپ نہیں ہے، بوڑھی ماں ہے۔ دو چھوٹے بھائی ہیں۔ جنھیں تعلیم کی ضرورت ہے۔ ایک جوان بہن ہے، جو میٹرک سے آگے نہ پڑھ سکی، مجھے اس کی شادی کرنی ہے۔ ماں کو بڑھاپے میں آرام سے رکھنا ہے۔ زمین خریدنی ہے۔ گھر بنانا ہے۔ گھر کا سامان خریدنا ہے اور وقت کے ساتھ چلنا ہے۔ میں نے اپنا سب کچھ تج دیا ہے۔ گھریلو حالات نے مجھ سے قربانی مانگی۔ میں نے اپنے آپ کو پیش کر دیا۔ میں ایک مرکز ہوں جس کے چاروں طرف بوڑھی ماں، جوان بہن، اور چھوٹے بھائی گھومتے ہیں۔ میں اگر درمیان سے ہٹ جاؤں، تو وہ آپس میں ٹکرا جائیں گے، سورج کی کشش سے نکلے ہوئے ستاروں کی طرح۔ ٹکرا جائیں گے۔ ٹکرا کر پاش پاش ہو جائیں گے۔۔۔۔ ۔ اس لئے۔۔
حسن: اس لئے کیا
رضیہ: اس لئے Tomato ketchup
میوزک)
(اسکول میں انٹر ویل ہے۔ بچوں کا دھیما دھیما شور)
بچہ: بیلون، بیلون
بابا: یہ تمھارا ہے۔ وہ دوسرے منے کا ہے
دھیما شور)
بچہ: اس بیلون پر پھول نہیں ہیں بابا
بابا: پھولوں والا بیلون یہ ہے
(بیلون پھٹنے کی آواز)
بچہ: آہا ایک بیلون پھٹ گیا۔
بابا: ہمارا پاکٹ میں اور بھی ہے۔ یہ لو
(دھیما شور)
بچہ: ایک اور بابا
بابا: جب تم پہلا چوپڑی کٹم کرے گا تو ہم اتنا۔۔۔ اتنا بہت سا بیلون لائے گا
بچہ: اتنا۔۔۔ اتنا بہت سا بیلون
(ہنسی)
٭٭
(فیکٹری کے دفتر میں)
کریم بھائی: خود سے) چھ ہجار تین سو اٹھارہ اور پانچ سو انونجا۔۔۔ ٹوٹل چھ ہجار آٹھ سو سڑ سٹھ
(گھنٹی بجا کر پکارتا ہے)
رضیہ: (آتے ہوئے) یس سر
کریم: وہ جو پروفیسر صاحب ہے نا۔۔۔۔ اُدھر بڑے کالج میں، بچہ لوگ کو پڑھاتا ہے۔
رضیہ: پروفیسر کمال
کریم: پروفیسر صاحب کا۔۔۔ وہ جو روم ہوتا ہے کتابوں کا۔
رضیہ: لائبریری
کریم: ہاں اس کے لئے فرنیچر گیا تھا۔ چھ ہجار آٹھ سو سڑ سٹھ روپے کا۔۔۔۔ وہ بولتا ہے، بل بھیجو
رضیہ: جی سیٹھ
کریم: ففٹی پرسینٹ کمیشن کاٹ کے بل بھیج دو
رضیہ: ففٹی پرسینٹ سر
کریم: وہ بہت پڑھیلا آدمی ہے، اسے لکھو Payment کا جلدی نہیں ہے۔
رضیہ: جی اچھا
کریم: پڑھیلا آدمی بہت بڑا ہوتا ہے۔
رضیہ: یس سر
کریم: حسن صاحب آج چھٹی پر ہے۔
رضیہ: جی
کریم: امتحان دیتا ہے
رضیہ: وہ کہتے ہیں اس سال میرا ارادہ نہیں ہے۔
کریم: اسے بولو کریم بھائی ناراض ہو گا۔ امتحان ضرور دو، چوپڑی نہیں تو ہمارے کو بولو۔ فارن سے منگوا کے دے گا۔ چھٹی مانگتا تو ہمیں بولو۔ فیس ہم دے گا۔ پھر کیا بات، حسن صاحب امتحان کیوں نہیں دے گا۔
رضیہ: میں ان سے کہوں گی
کریم ؛ ہاں اس کو بولو۔۔۔ کوئی بات ہوتا ہے، تو وہ ہمارے کو بولتا کیوں نہیں۔ خاموش کیوں رہتا ہے۔ تم بھی مس رضیہ اور خواجہ صاحب بھی۔ ہم بولتا ہے، سب پڑھیں گا۔ جب پاس ہوئے گا تو ہم ڈبل انکریمنٹ دے گا۔
رضیہ: تھینک یو سر
کریم: غصہ بہت کرتا ہے حسن صاحب۔ اسے بولو ہیلتھ خراب ہوتا ہے غصہ سے۔۔ کیوں ناراض رہتا ہے۔۔ بولو، پڑھو لکھو، اوپر کی طرف جاؤ، اور بس۔۔ کریم بھائی بولتا ہے۔ ٹھیک ہے ؟
رضیہ: ٹھیک ہے سیٹھ صاحب
کریم: پروفیسر کمال کو لیٹر آج ہی despatch ہو جائے۔
رضیہ: OK باس
کریم: اب ہم جائے گا
رضیہ: تین بجنے والے ہیں
کریم: ہم جاتا ہے۔
(میوزک)
(ماں اور بیٹا)
ماں: جوتے چمکا رہا ہے
حسن: ہاں اماں
ماں: لا برش مجھے دے۔۔ تو تھک جائے گا
حسن؛ جوتے پر پالش کرنے سے تھک جاؤں گا۔
ماں: اور نہیں تو کیا۔
حسن: ابھی تک مجھے ننھا منا سا سمجھتی ہو
ماں: ننھا منا سا نہیں ہے تو کیا بڑا ہو گیا ہے تو
حسن: (پیار سے ماں کی نقل اتارتا ہے) اور نہیں تو کیا۔
ماں: پھر تو تجھے میری بات ماننی پڑے گی
حسن: کیا بات اماں
ماں: بہو لے آ۔ میرے آنگن کی روشنی لے آ۔۔ اپنے جوتے چمکاتا ہے۔۔ میری تقدیر چمکا دے بیٹا۔
حسن: مگر اماں ابھی تو۔۔۔
ماں: باتیں مت بنا۔ (گفتگو میں دیوانگی کا اثر آ جاتا ہے) نہیں تو اب کی پہلی کو ڈاکیہ آئے گا منی آرڈر لے کے تو اس کے ہاتھ شکایت کا خط بھیج دوں گی تیرے باپ کو۔۔۔۔ وہ آئیں گے تو ایک چانٹا اِدھر سے لگائیں گے، ایک اُدھر سے۔۔۔ ہاہاہا۔۔۔ اور کہیں گے، چل، سہرا باندھ، دولہا بن۔۔۔۔ پھر تو روئے گا۔۔۔ اوں، اوں، اوں، اوں۔۔۔ ہاہاہا
حسن: اماں
ماں: اوں اوں اوں اوں۔۔۔ (ایکسیڈنٹ کی آواز) سب رو رہے ہیں، اسپتال والے بھی، تھانے والے بھی، اور زمین کا وہ لال لال ٹکڑا بھی جہاں اس کا خون گِرا تھا۔۔۔ بس وہ نہیں رو رہا۔۔۔ وہ جس کے پاس لمبی سی کار ہے۔
حسن: اماں، آپ نے پھر وہی باتیں شروع کر دیں۔
ماں: تو آج دفتر مت جا۔
حسن: دفتر نہ جاؤں ؟
ماں: ہاں
حسن: کیوں آخر
ماں: اس لئے کہ وہ تجھے ڈھونڈ رہا ہے، تیری تاک میں بیٹھا ہے،
حسن: کون میری تاک میں بیٹھا ہے
ماں: وہی لمبی کار والا
حسن: اماں
ماں: میرا دل کہہ رہا ہے۔۔ پھر نہ کہنا، بتایا نہیں تھا۔۔۔۔ کہے دیتی ہوں۔۔۔ وہ تجھے تلاش کر لے گا آج !۔۔۔۔ ۔ جب وہ گدھ کی طرح پر پھڑپھڑائے گا تو، چیں چیں کرتا رہ جائے گا تو۔۔۔ چیں چیں۔۔ ہاہاہا
(میوزک)
٭٭
(اسکول میں چھٹی کا وقت ہے، کریم بھائی اسکول میں ہے۔ خواجہ اور حسن اسکول کے قریب ہی اس کے باہر آنے کا انتظار کر رہے ہیں۔)
(اس سین کو پرہول بنانے کے لئے آندھی، بجلی، کڑک اور بارش کے صوتی اثرات دئیے جائیں گے۔ خواجہ اور حسن باہر باتیں کر رہے ہیں، کریم بھائی بچے سے اسکول میں باتیں کر رہا ہے)
خواجہ: جانتے ہو اس وقت تمھیں یہاں کیوں لایا ہوں۔
حسن: نہیں تو، مجھے کیا معلوم
خواجہ: میں نے تم پر ظاہر نہیں کیا تھا، ظاہر میں اس کی طرفداری کیا کرتا تھا، مگر اس فکر میں تھا کہ تین بجے کہاں جاتا ہے، کیوں جاتا ہے، چھپ کر۔
کئی بار اس کا پیچھا کیا، مگر وہ ہمیشہ dodge دے جاتا تھا۔
تم بھی آج اپنی آنکھوں سے دیکھ لو گے اسے ایک اور ہی روپ میں
حسن؛ سچ کہو
خواجہ: اور بھی معلوم نہیں کتنے روپ بدلتا ہو گا۔
حسن: اچھا۔۔۔۔ میں نہ کہتا تھا کہ وہ فراڈ ہے۔
خواجہ: وہ سامنے جو اسکول ہے
حسن: ہاں ہاں
خواجہ: چھٹی ہو رہی ہے نا، تو ابھی اس اسکول میں سے نکلے گا۔۔۔۔ چپراسی کی یونیفارم پہنے ہوئے۔
حسن: (حیرت سے) چپراسی کی یونیفارم پہنے ہوئے
خواجہ: یہ بات مجھے کل ہی معلوم ہوئی کہ وہاں جو ہمارا باس بنا ہوا ہے، اسکول میں چپراسی بنا ہوا ہے۔
اسکول کی گھنٹی بجتی ہے)
حسن: چھٹی ہو گئی
خواجہ: اِس کیبن کی اوٹ میں آ جاؤ، ہمیں دیکھ کر بھاگ نہ جائے trot, trot, trot
(فاصلے پر یعنی اسکول کے صحن میں بچوں کی آوازیں وغیرہ)
بچہ: بابا
کریم: ہاں منے ساب
بچہ: یہ پینسل
کریم: ہاں ہاں یہ پینسل
بچہ: ممی منع کرتی ہیں۔۔۔ کسی سے کوئی چیز مت لو
کریم: (ہنستا ہے) بابا کو سب جانتا ہے، ممی کو بولو چپراسی بابا نے دیا ہے
خواجہ: اب اسکول کے گیٹ سے نکلنے ہی والا ہے۔ یہ بارش بھی شروع ہو گئی۔
حسن: اور کتنی تیز بارش ہے، کتنی بڑی بڑی بوندیں
خواجہ: کچھ بچے اور باقی ہیں۔۔ سب کے بعد آئے گا۔
حسن: آج بہت بڑا فراڈ ظاہر ہونے والا ہے۔
کریم: منے
بچہ: بابا
کریم ؛ دوڑتے کیوں ہو
خواجہ: وہ دیکھو۔۔۔ نکلا۔۔ ایک بچے کا ہاتھ پکڑے ہوئے۔۔ وہ سامنے۔۔
(بادل کی گرج اور لوگوں کا شور)
کریم: ہاتھ پکڑے رہو، ہم سڑک پار کرائے گا تمھیں
خواجہ: بچے اغوا کرنے والے گروہ کا سرغنہ ہے شاید۔۔۔ اُسے اغوا کرنا چاہتا ہے
حسن: بالکل، بالکل
خواجہ ؛ دیکھتے رہو، ابھی ہتھکڑیاں ڈلواؤں گا۔
حسن: ارے وہ ٹرک۔۔۔ بچہ۔۔۔ کریم بھائی
ایکسیڈنٹ کا تاثر۔۔۔۔ لوگوں کا شور)
ایک آواز: بچے کو بچا لیا اس نے
دوسری آواز: چپراسی۔۔۔۔ جلدی، اسپتال۔۔۔۔ چپراسی بری طرح زخمی ہوا ہے۔
(لوگوں کا شور۔۔ ایمبولینس کا اسٹارٹ)
(میوزک)
(ہسپتال میں بات چیت گویا پہلے سے جاری ہے)
خواجہ: بڑی حیرت کی بات ہے۔۔ I mean اسے کیا کہا جائے۔
حسن: کہنے سننے میں ایسی کیا دشواری ہے۔۔۔ دیکھئے نا سیٹھ صاحب، اب جو آپ کی یہ حالت ہے، میرا مطلب ہے، آپ اس وقت یہاں ہاسپٹل کے بیڈ پر۔۔۔
کریم: ہمارے کو کوئی بولا تم اس session میں exam نہیں دیتا
حسن: یہ اتنی اہم بات نہیں ہے۔ اہم بات یہ ہے کہ آپ بتائیے، آپ نے آخر۔۔۔
کریم: نہیں حسن exam زیادہ importantہے۔ ہم تمھارے کو بولتا ہے تم examضرور دے گا۔
رضیہ: سر اخبار میں بھی نیوز آئی ہے۔
کریم: اچھا ہے، اس سے مشہوری ہوتا ہے۔
رضیہ ؛ مجھے تو بالکل بھی یقین نہیں۔ ذرا بھی یقین نہیں۔ میں تو آپ کو بہت اچھا جانتی ہوں، آپ نے کسی کے ساتھ کبھی کوئی برائی نہیں کی۔۔۔ مگر۔۔۔ مگر اخبار میں۔۔۔
کریم: اخبار والا publicity کرتا ہے
رضیہ: لکھا ہے آپ سیٹھ بھی اور آپ۔۔۔۔ آپ چپراسی بھی۔۔ اس کی وجہ سے۔۔۔
حسن: صاف کیوں نہیں بتاتیں، اخباروں نے فراڈ کا لفظ استعمال کیا ہے آپ کے لئے
کریم: تم نے، مس رضیہ۔۔۔ پروفیسر صاحب کے بل میں کمیشن کاٹ دیا تھا
حسن: بات بدلنے کی کوشش نہ کیجئے۔۔۔۔ سچ سچ بتائیے۔۔ یہ کیا ٹھیک ہے
کریم: او۔۔۔۔ تم تو ناراض ہو گیا۔۔۔ انکوائری کرتا حسن صاحب
خواجہ: آپ بتا دیجئے
کریم: بتانے کا بات بس اتنا ہے کہ پڑھو، لکھو، بڑا آدمی بنو
خواجہ: سیٹھ صاحب
رضیہ: دیکھتے نہیں سیٹھ صاحب کی طبیعت ٹھیک نہیں ہے۔
کریم: نہیں مس رضیہ۔۔ ہم ٹھیک ہے۔ زیادہ چوٹ نہیں آیا ہے، پر ہم بولتا، حسن صاحب کے ساتھ آج خواجہ صاحب بھی غصہ کرتا ہے۔ (ہنستا ہے) تم لوگ کا غصہ ہمارے کو بہت اچھا لگتا ہے۔ اچھا اب بتاتا ہے، اب تو شاید یہ ہمارے کو بتانا ہی پڑے گا۔ بہت دن تک چھپا لیا۔۔۔ کوئی بات چھپانا بہت مشکل بات ہے۔۔ اتنا مشکل، اتنا مشکل کہ سب کچھ ٹوٹ پھوٹ جاتا ہے۔ ہم بھی ایک ٹوٹا پھوٹا آدمی ہے۔ ٹوٹے ہوئے ہاتھ کی طرف نہیں دیکھو حسن صاحب۔۔۔ یہ کچھ نہیں، یہ تو بہ تھوڑا سا ٹوٹ پھوٹ ہے۔۔ باہر کا ٹوٹ پھوٹ۔۔ اندر سے جب آدمی لوگ ٹوٹتا ہے تو ایک دم ملبہ بن جاتا ہے۔۔۔ ایسا موئن جوداڑو جس میں پرانے سکے اور ٹوٹے پھوٹے مٹی کے برتن بھی نہیں ملتے۔۔۔۔
(خیالوں میں کھو کر بولتا ہے) ہاں، ہمارا باپ اس سے بہت ڈرتا تھا، ہماری سائیڈ سے بولنا نہیں سکتا تھا۔۔
رضیہ: جی سیٹھ
کریم: ہماری اسٹیپ مدر اپنے بال نوچتی تھی، سر کو دیوار سے مارتی تھی، پھر اتنا شور کرتی تھی۔۔۔ اتنا شور کہ بالکنی کے نیچے سڑک پر آدمی لوگ جمع ہو جاتا تھا
رضیہ ؛ جی
کریم: دوسرا بچہ لوگ کو دیکھ کر ہمارا دل بھی پڑھنے کو کرتا۔ مگر اس نے بولا۔۔ دھندا کرو، پیسہ لاؤ۔۔ ہم جاہل رہ گیا۔۔ ایک دم جاہل۔۔ بڑا بھی ہو گیا۔۔ سیٹھ بھی ہو گیا۔۔۔ سیٹھ کریم بھائی۔۔۔ مگر جاہل۔۔ تو پھر ہم نے سوچا۔۔۔ اب کیا کرے۔۔ جاہل آدمی تو جانور کے مافک ہے۔۔۔ جانور۔۔ آدمی کی خدمت کے لئے ہوتا ہے۔۔ ہم بولا۔۔ ہم بھی خدمت کرے گا۔۔ پڑھنے والے لوگ کا خدمت کرے گا۔
خواجہ: اسی لئے آپ پڑھنے والوں کی زیادہ سے زیادہ مدد کرتے ہیں۔۔ ملازم بھی انھیں کو رکھتے ہیں اور۔۔
کریم: ہاں خواجہ صاحب
حسن: مگر اسکول میں چپراسی
کریم: یہ بات بھی تمھارے کو سب کچھ بتائے گا۔۔۔ وہ جو تھا تمھارا والد صاحب
حسن: میرے ابو۔۔۔ ہاں ہاں
کریم: پندرہ سال پہلے اس کا ایکسیڈنٹ میرے کی گاڑی سے ہوا تھا
حسن: (بگڑ کر) کریم بھائی آپ
کریم: ہم نہیں تھا۔۔۔ ہمارا ڈرائیور تھا۔۔ وہ بھاگ گیا۔۔ ہمارے کو بھی نہیں ملا۔۔۔ پولس کے ہاتھ بھی نہیں آیا۔۔ پھر ہم بولا کریم بھائی اس کا فیملی کیا کرے گا۔ بچہ لوگ بھوکا مر جائے گا۔۔ اس کا Pay ملنا مانگتا۔۔ پھر ہم غریب آدمی کے مافک اسکول گیا۔ اس کی جگہ نوکر ہو گیا۔ اُدھر کا Pay ہم تمھارے گھر بھیجتا تھا۔
حسن: (غصہ اُتر گیا) اوہ، وہ آپ ہیں، جن کا منی آرڈر ہر مہینے ہمارے گھر آتا تھا۔
خواجہ: مگر۔۔۔ مگر سیٹھ صاحب آپ کو نوکری کرنے کی کیا ضرورت تھی۔۔۔ آپ یوں بھی مدد کر سکتے تھے۔
کریم: خواجہ صاحب۔۔۔ بچہ لوگ پڑھنے والا بچہ لوگ کی خدمت کا ایک اور چانس جو مل گیا میرے کو ٭٭٭