(Last Updated On: )
مصنف : اشفاق حسین
ملنے کا پتہ: ادبی ٹرسٹ بک ڈپو، معرفت روزنامہ سیاست، حیدرآباد۔
ناشر: آندھراپردیش ساہتیہ اکیڈیمی
ضخامت: ۲۰۸
قیمت : ۸ روپے
اقبال گزشتہ تین چوتھائی صدی کا ایک عجیب سا ادیب ہے۔ اگر آپ اسے شاعر کہیں تو فن کی پرکھ کے معیار لرزیدہ ہو جاتے ہیں اور اگر آپ اسے شاعر نہ کہیں تو نہ صرف ایک خوب صورت شاعر سے چشم پوشی کرنے کی بد ذوقی کے مرتکب ہو رہے ہیں۔ اسی طرح اسے کسی خاص مسلک کا فلسفی کہنے میں جھجک سی محسوس ہوتی ہے کہ خود اس کے فلسفیانہ ارشادات میں نرالا سا تضاد ملتا ہے۔
اشفاق حسین صاحب کی کتاب اقبال کے سماجی فلسفہ کی شرح میں ہے۔ اقبال جس دور میں زندہ تھے۔ خیالات کے تصادم کا دور تھا۔ حریت کی بے پناہ خموش قوت ایک دھماکے کی طرح منظر پر آ گئی تھی۔ اس دھماکے سے بنجر زمینیں الٹ کر زرخیز ہو گئیں اور کئی بنی بنائی آبادیاں تاریخ کا ایک گزشتہ دور بن گئیں۔
اقبال کی شاعری میں تخلیقی عناصر کی کمی ضرور ہے فکری توانائی خود ان کے ذہن کے صریحاً طاقت ور انجذاب اور مطالعے کی وسعت کا نتیجہ ہے۔ اقبال کا فکری سرمایہ عمل کی بجائے رد عمل اور اصرارِ عمل ہے۔ اس کا مدار اصل وجدان پر نہیں بلکہ نظریات کی تائید و تردید پر ہے۔ ان کی شاعری میں جگہ جگہ دلیل و جوابِ دلیل، آیات و احادیث کا ترجمہ، اقوال اور وکالت کے پہلو ملتے ہیں۔ غالباً یہی سبب ہے کہ اقبال پر لکھے جانے والے اکثر مضامین اقبال اور ان کے مقابل یا راہبر کے درمیان تعلق پر بحث کرتے ہیں مثلاً اقبال اور پان اسلامزم، اقبال اور عشقِ الٰہی، اقبال اور رومی، اقبال اور نطشے وغیرہ وغیرہ۔
زیر نظر کتاب بھی اسی طرح کا ایک متوسط جائزہ ہے جس میں اقبال کا جن چند منتخب مکاتیبِ فکر سے نظریاتی انطباق یا تفاوت ہے۔ اس پر بحث کی گئی ہے۔ کتاب کا رویہ پس رو کا رویہ ہے۔ تنقیدی غور و فکر کا رویہ نہیں۔ اس لیے ہر مکتب فکر کو اچھے رخ کی طرح پیش کیا گیا ہے۔ بیانات میں اس قدر تعمیم سے کام لیا گیا ہے کہ ایک نظریے کا دوسرے نظریے سے اختلاف واضح نہیں ہوتا۔
مثلاً ہندستانی فکر کے تحت صفحہ ۴۶ پر درج ہے:
’’اصل میں گوتم کے یہاں حسنِ عمل اور حسنِ کردار اور انسانی زیست کی غایت کا یہ تصور ہندستانی فکروں کا ایک جزو ہے جو عمل ہی کو انسانی زندگی کی مثبت قدر قرار دیتا ہے‘‘۔
میری رائے میں یہ تخصیص کا غلط استعمال ہے۔ حسنِ عمل، حسنِ کردار اور انسانی زیست کی غایت۔ کیا اسلامی فکر، مغربی فکر یا کسی اور مسلک کا جزوِ خاص نہیں ہے۔
جگہ جگہ پر بیانات دیے گئے ہیں اور یہ بیانات بار بار دہرائے گئے ہیں اس لیے نکیلا پن (Preciseness) نہیں ملتا۔ غور کیجیے۔
۱۔ رومی نے عشق کے مقابلے میں عقل کی نارسائی اور آزادیِ ارادہ یعنی جبر کے مقابلہ میں اختیار کی نئی تفسیر کر کے یہ آگاہی بخشی کہ انسان اپنی تقدیر کا آپ مالک ہے (ص: ۳۰)
۲۔ رومی کا جذب و سرور ان کی سرمستی عالم گیر جذبۂ انسانیت، ان کا ذوق و شوق، ان کی انا کا تصور، ان کی قلندرانہ جرات افکار و گفتار، انسان خدا اور کائنات کے بارے میں ان کا اجتہادی نقطۂ نظر سب نے اقبال کو متاثر کیا۔ (ص: ۳۰)
۳۔ زرتشتی فکر کی وضاحت اقبال نے اپنی ہی اصطلاحوں میں کی ہے، خودی اور عشق، خلوت و جلوت، درد و سوز، آرزو و جستجو، آدمی گری، با کارواں رفتن، خیر و شر کا تصادم، انسانی شخصیت یا خودی کو آشکارا کرنا، اپنی طاقت کو آزمانا، عشق کا درجہ کمال پر پہنچ کر دوسروں کا منزلِ مقصود تک پہچانا، خدا کے جلوہ کو سب کے لیے عام کرنا اور انسانی دوستی اقبال کے مرکزی موضوع ہیں۔ (ص: ۴۲)
۴۔ ٹیگور کی فکر کا مرکز اور محور محبت ہی ہے جیسا کہ وہ کہتے ہیں ’’انسان کی آزادی اور نجات محبت میں ہے جو شعورِ اکمل کا دوسرا نام ہے‘‘۔ اقبال کی طرح وہ بھی ترکِ دنیا کے قائل نہیں، کائنات میں انسان ہی سب سے بڑی حقیقت ہے، انسانوں کے باہمی تعلق کی بنیاد جب تک محبت و الفت پر نہ رکھی جائے اور انسانی قدروں کے لیے جذبۂ احترام پیدا نہ ہو، زندگی کا مقصد حاصل نہیں ہو سکتا۔ (ص: ۵۸)
۵۔ اقبال کو مغربی فکر کے جس پہلو نے سب سے زیادہ متاثر کیا وہ اس کا فلسفہ عمل یا ذوقِ عمل ہے اور اس ذوقِ عمل سے زندگی کا جو تصور اور مثبت رویہ ابھرتا ہے وہ حیات کو حرکت اور انسان کو فعال گردانتا اور انسانی انا کو ایک حقیقت سمجھتا ہے۔ (ص: ۴۸)
اوپر دیے ہوئے بیانات میں تعمیم اور ’’جو ہے، وہ اچھا ہے‘‘ کی صورت سے قطع نظر زور و بیانی کا عجیب سا پہلو سامنے آتا ہے۔
اشفاق حسین صاحب کی کتاب اقبال کے نظریاتِ حیات کے چند واضح پہلوؤں پر ایک قسم کا بیانیہ ہے جس کی زبان سنجیدہ عبارت ہے۔
اقبال کی فکر عمیق ہے اور اس کا تحت شعور واضح لہجہ کے انتشار کے باوجود منفرد اور واحد ہے۔
مجموعی طور پر ’’اقبال اور انسان‘‘ ایک اچھی کتاب ہے جو طالبانِ علم کے لیے اقبال کے طرزِ فکر کا ایک عکس پیش کرتی ہے۔
کتاب، طباعت، سرورق مناسب ہیں۔ (پندرہ روزہ ’’برگِ آوارہ‘‘، ۱۹۷۵ء)
٭٭٭