(Last Updated On: )
شاعر : عبدالمتین نیاز
صفحات: ۱۲۰ صفحات، قیمت: دس روپے
حرف و صدا باطن و خارج کی دو علامتیں ہیں جنھیں عبدالمتین نیاز نے اپنے کلام کی نمائندگی کے لیے منتخب کیا ہے تاکہ ذاتی و شخصی تجربات کے درونی اور بیرونی عوامل کو پیش کر سکیں۔ نیاز نے خوب صورتی سے کہا ہے کہ ’’ہماری تخلیق میں ہمارے ذاتی اور شخصی تجربات و احساسات کا تین چوتھائی حصہ شامل ہوتا ہے، بقیہ چوتھائی حصہ خارج سے منسلک رہتا ہے‘‘۔
نیاز کی شاعری کو کلیتہً جدید قرار نہیں دیا جا سکتا۔ نہ ہی ان کی شاعری کے تار و پود میں جدت اور تجرباتیت ملتی ہے نہ ہی وہ تشبیہ و استعارہ کی منزل پار کر سکے ہیں۔ لیکن مزاجی طور پر ان کی شاعری جدید ہے کہ اس میں داخلی عناصر ذات کے احساسات پر مبنی ہیں جو کہ خاص اظہار کی طرف مائل ہیں۔
نیاز بنیادی طور پر ایسے شار ہیں جن کے پاس انسانیت کے دکھ درد، بے حسی سے اختلاف، مشینوں اور زندگی کے شور شرابے سے نجات، عقائد کی شکست و ریخت سے متاثر شاعری ملتی ہے۔ وہ اختصار پر قادر ہیں اورا سی لیے غزل میں ان کا رنگ روشن ہو جاتا ہے۔
نیاز کی شاعری احمد ندیم قاسمی کی طرح جدت اور ترقی پسندی کے درمیانی راستہ پر گامزن ہے۔ جہاں فرد ایک واحد عملی کردار ہے جس پر تجربات و احساسات کے سایے مختلف رنگوں میں اپنی جولانی دکھلاتے ہیں۔ راحت کی آرزو، خواب کا واہمہ ہونا، ضبطِ اظہارِ کرب، آگہی کے سائے، ظاہر و باطن میں تفاوت، مصلحتوں کے بدلتے رخ یہ سارے موضوعات نیاز کی شاعری میں ملتے ہیں۔
عبدالمتین نیاز کی زبان میں کوئی تجربہ نہیں، نہ ہی کوئی تجربہ نہیں، نہ ہی کوئی نئی ترکیب تخلیق کرنے کی کوشش ہے، وہ رائج زبان میں ہی شستگی کے ساتھ اپنا فنی اظہار کرتے ہیں، ان کی شاعری کا حسن ان کے تشبیہ استعارہ کے انتخاب اور سلاستِ بیان میں ہے۔ ان کے اکثر اشعار میں دلیل و حجت کی کیفیت ملتی ہے۔ پہلا مصرع دلیل کہتا ہے تو دوسرا مصرع اس کے تتمہ کا حق ادا کرتا ہے۔
بہ حیثیتِ مجموعی، حرف و صدا، عبدالمتین نیاز کا ایک متوازن اور معیاری شعری مجموعہ ہے جس میں خوب صورت غزلیں اور اچھی نظمیں ملتی ہیں اور ادب ذوق قارئین کے لیے یہ ایک اچھا تحفہ ہے۔
نیاز کے کلام کی چند مثالیں لیجیے:
رنگ چڑھ گئے کتنے میری سادہ لوحی پر
کچھ سے کچھ ہوا میں بھی شہر کی ہوا کھا کر
جسم کے اندر بھی جھانکیں کل نہ تھا اتنا شعور
دور کے نظارے دیکھیں اتنی بینائی نہ تھی
مفاہمت نہ کبھی مصلحت سے کی ہم نے
زمانہ سازوں کے آگے ہوئے نہ خم نہ رکے
میرے ہونٹوں پہ محبت کی صدا ہے کب سے
کوئی دیکھے تو سہی پھول کھلا ہے کب سے
چشمِ بینا سے ہیں محروم سبھی کون پڑھے
میرے چہرے پہ سوال ایک لکھا ہے کب سے
ہم کو کہاں وہ صورت رعنا دکھائی دے
جب آئینے ہی اس کی ادا کو ترس گئے
وہ خوں کا پیاسا درندہ ہے کیسے مانے گا
لہو کا ذائقہ اس کی زبان پر رکھ دے
عبدالمتین نیاز کی شاعری وسطی لب و لہجہ کی شاعری ہے۔ ان کے تجربات عام شخص کے تجربات سے قریب تر ہیں۔ ’’حرف و صدا‘‘ ایک خوب صورت مجموعہ کتاب و طباعت اوسط ہیں (برگ آوارہ، ۱۹۷۴ء)۔
٭٭٭