(Last Updated On: )
شاعر : علی ظہیر
ملنے کا پتہ: اردو اکیڈمی آندھرا پردیش، حیدرآباد۔
ناشر: فردوسی پرنٹرس و پبلیشرس، حیدرآباد۔
صفحات: ۵۴ (جملہ ۶۵)، قیمت: ۱۵ روپے
علی ظہیر اردو کے جدید تر شاعروں میں سے ہیں اور ان کی شاعری اس نئے نئے پودے کی طرح ہے جو زمین سخن پر اُگ رہا ہے۔ علی ظہیر کا شعری رویہ خاص شاعرانہ ہے اور اس مجموعہ میں شریک ان کی نظمیں مختصر ہیں۔ لیکن کم الفاظ میں اس کیفیت کے اظہار میں کامیاب ہیں جو شاعر کے دل و دماغ میں ہے۔ الفاظ کا نپا تلا استعمال ایک پیاس کو باقی رہنے دیتا ہے اور یہی پیاس ہے جو علی ظہیر کے کلام کے عجبیت کا رنگ برقرار رکھنے دیتی ہے۔ علی ظہیر کی شاعری نہ تو بلند آہنگ میں کسی عہد نامہ ہونے کا دعویٰ کرتی ہے نہ تو رومانی عمرانیات سے تعلق رکھتی ہے۔
علی ظہیر کی یہ مختصر نظمیں کسی طویل نظم کا مختلف حصہ لگتی ہیں اور شاید وہ طویل نظم ان کی شاعری ہے۔ علی ظہیر کا موضوع ہے فرد کی مفعولیت۔ ان کا شکوہ ہے کہ انسانیت، ریت رسم، وقت اور سماجی پابندیوں سے اتنی متاثر ہو گئی ہے کہ معصومیت میں وہ سادگی نہیں۔ ان نظموں میں مفعول ہی موضوع ہیں ان ہی کے کرب و توہمات کو شاعر خاص کلائمکس کے مقام پر سے اٹھا لیتا ہے۔ ان مختصر لمحات کو ڈرامائیت اور تیکھے الفاظ سے اس سادگی سے آراستہ کرتا ہے کہ پورا منظر سامنے آ جاتا ہے۔
علی ظہیر کی نظم جدید تر لمحہ کی نظم ہے۔ اس کا ماحول، نئی زندگی اور نیا شہر ہے۔ ان کا لب و لہجہ اس اس قدر زائد سادہ (Over simplified) ہے کہ زمان و مکاں کا تعین ممکن نہیں۔ یوں تو نظموں میں وقت کی کوئی خاص علامت نہیں ہوتی لیکن ان نظموں میں ہر کرب و درد کو آفاقی حقیقت کی طرح بیان کیا گیا ہے۔ علی ظہیر کی شاعری تازہ اور مفکر ذہن کی پیداوار ہے اور ابھی نئی نویلی ہے اور آہستہ آہستہ اس میں نوخیز پودے سے گھنے درخت بننے کا امکان ہے۔ اس کی تازگی میں غضب کا حسن ہے اور میں ہر ادب دوست سے اس کتاب کے مطالعہ کی سفارش کروں گا۔ علی ظہیر کی شاعری کے کچھ نمونے قارئین کے نذر ہیں۔
جب میرا لطفِ سخن چھینا گیا
ٹھنڈے لاوے کی چٹانوں کی طرح
سوچ سینے کے سیہ خانوں میں خاموش ہوئی
زرد سوکھے ہوئے پتوں کی قطاریں ہر سو
راستے ڈھکتی گئی
آج راہوں کے مقدر میں کوئی چاپ نہیں
(جب مرا لطف سخن چھینا گیا)
میرا اپنے اسکول کے اندر
دوسرے بچے رہے ہیں
میں پھر کھڑکی پر ٹھہرا ہوں
(منظر)
میں تمھاری آنکھ کی پتلی میں رہتا تھا کبھی
اب کنویں کے پانی میں جھانکتا ہوں
ٹوٹی دیواروں پہ بیٹھا
میں سناتا ہوں فسانے
لوگ سب سنتے ہیں اور
سن کر گزر جاتے ہیں
جیسے میں کوئی آسیب ہوں
(میں تمھاری آنکھ کی پتلی میں رہتا تھا کبھی)
کتاب اور طباعت اچھی ہیں۔ (ماہ نامہ سب رس، اپریل ۱۹۷۸ء)
٭٭٭