(Last Updated On: )
’’عالِم کی موت اصل میں عالَم کی موت ہے‘‘
صد حیف کہ دنیائے اسلام کی اہم ترین شخصیات میں ممتاز تر عالمِ دین کا انتقال ہو گیا۔ اس قحط الرجال کے دور میں ایک بطلِ گراں کا پردہ پوش ہو جانا، اُمت کے لیے ایک جاں کاہ صدمہ ہے اور ’’انا للہ و انا الیہ راجعون‘‘ پر ایقان رکھنے کا ایک اور درد ناک موقع ہے۔
نئے حیاتیاتی پیمانوں کے لحاظ سے مولانا نے بھرپور، حرکیاتی اور فعال زندگی گذاری، صدمہ انگیز فضا میں زندگی کے بدلتے اقدار کی کیفیات (آنکھیں جو کچھ دیکھتی ہیں لب پہ آ سکتا نہیں) کو سہتے ہوئے دہلی کے تخت پر متنوع عقائد کے رہنماؤں کے قبضے کو برداشت کرتے ہوئے اور تو اور عالمِ اسلامی کے حالات و شواہد کو دلِ درد مند سے جانچتے ہوئے ۸۵ بلکہ ۸۶ شمسی سال گذارنا بڑے جگر کی بات تھی۔ مولانا نے ایک بے حد فعال اور مفید الامہ زندگی گذاری، وہ ۱۹۱۴ء میں بریلی (ہندستان) میں پیدا ہوئے اور ۳۱ دسمبر ۱۹۹۹ء کو راہی ملکِ عدم ہوئے۔ ہجری تواریخ کے لحاظ سے پیدائش ۶ محرم الحرام ۱۳۳۳ ہجری اور وفات ۲۲ رمضان المبارک ۱۴۲۰ ہجری مذکور ہیں۔ اللہ تعالیٰ مولانا پر اپنی رحمتوں کی بارش فرمائے۔ مغفرت سے نوازے اور بہشتِ بریں میں اعلیٰ مقام عطا کرے۔۔ ۔ آمین۔
مولانا ابو الحسن علی ندوی کا تاریخی نام ظہور حیدر تھا لیکن ابو الحسن علی نے رواجِ عام پایا اور ہند و پاک اور بنگلہ دیش میں عمومی طور سے ’’علی میاں‘‘ کے پیارے نام سے پہچانے جاتے تھے۔ ندوہ کی خدمات، رابطۂ عالم اسلامی سے تعلق، مختلف وقتی اور مذہبی مسائل میں اسلامی نکتۂ نظر کے وکیلِ اعظم کے طور سے وہ عظیم تر ہندستان میں جانے پہچانے گئے۔ چاہے وہ بابری مسجد کا مسئلہ ہو، چاہے وہ شاہ بانو کیس ہو، چاہے مسلم پرسنل لا کا تحفظ ہو اور چاہے ایسا ہی کوئی پیچیدہ مسئلہ ہو جسے شر انگیز تنظیمیں کھڑاگ کی طرح کھڑی کرتی رہیں۔ مولانا نے ثابت قدمی اور صلح مند طریقے سے حکومت اور اشرار دونوں کو حسبِ مراتب مسلمانوں کے احساسات اور مذہبی تناظر میں مناسب اقدام سے روشناس کرنے کی حتیٰ المقدور کوشش کی۔ مولانا علی میاں میں بلا کی راست گوئی اور معاملہ فہمی تھی جو مسلمانوں کے لیے ایک قابلِ قدر نمائندگی تھی، حکومتِ وقت کے لیے لمحۂ فکر یہ بھی تھی۔ آج ان کے انتقال سے جو خلا پیدا ہوا ہے، اس کا اندازہ نہیں کیا جا سکتا۔۔ ۔
l
مولانا علی میاں سے میری واقفیت تیس پینتیس سال پرانی ہے۔ جب میں مدرسہ میں ثانوی تعلیم حاصل کر رہا تھا تب ان کا نام پہلی بار سنا۔ ہمارے شہر حیدرآباد دکن میں عثمانیہ یونیورسٹی سے منسلک ایک اہم ادارہ تھا ’’دائرۃ المعارف العثمانیہ‘‘ (یہ ادارہ آج بھی موجود ہے گرچہ نئے حالات کے تحت ضعیف ناتواں ہو کر رہ گیا ہے۔ قدر دان ہی نہ رہے)۔ اس ادارے میں میرے چھوٹے دادا جناب سعید الحق عمادی مرحوم کام کرتے تھے۔ وہ ایک روز مولانا علی میاں کی ترتیب دی ہوئی ان کے والد مرحوم حکیم سید عبدالحئی ناظم ندوۃ العما کی مشہور کتاب ’’نزہتہ الخواطر‘‘ کا زیرِ طبع (پروف) نسخہ لے کر آئے۔ وہ بہت مسرور تھے کہ اس کتاب میں ہمارے کئی باکمال اجداد کا ذکر شریک تھا۔ میں نے کتاب دیکھی تو تعجب بھی ہوا کہ یا اللہ ہندستان میں اس خود اعتمادی سے عربی زبان کی تصنیف کرنے والے مصنف بھی موجود ہیں۔ اور تو اور ہمارے دائرۃ المعارف سے ایسی کتابوں کی نشر و اشاعت بھی ہوتی ہے!! مولانا کا نام میرے ذہن میں اہم ناموں کی طرح مرتسم ہو کر رہ گیا۔ ان کی کوئی بھی تحریر ملتی تو پڑھنے کی کوشش کرتا۔ گرچیکہ ان تحریروں میں نہ تو چونکانے والی باتیں ہوتیں نہ تخلیقی فنکاری۔ مولانا کی کتاب تاریخِ دعوت و عزیمت کی تمام جلدیں شوق سے پڑھیں اور اندازہ ہوا کہ علمی کام بے حد صبر و شکیب مانگتا ہے۔ اس میں توازن و پاسداری بھی لازم ہیں۔
مولانا کو پہلی مرتبہ دیکھنے کا اتفاق اس بار ہوا جب وہ حیدرآباد میں منعقدہ جلسۂ رحمت اللعالمین (زیرِ اہتمام مجلس تعمیر ملت) میں حصہ لینے تشریف لائے۔ یہ تقریباً تیس سال پرانی بات ہے (شاید)۔ مولانا اسی طرح دبلے پتلے، طویل سفید داڑھی، مخصوص ندوۃ العلماء کے لباس میں کافی دل کش لگ رہے تھے کہ ان کا انداز دوسرے مقر رین سے قطعاً جدا تھا۔ وہ نہ تو فلسفہ کی عمق کی طرف عوام کو لے جا رہے تھے جیسے کہ پروفیسر عالم خوندمیری، نہ تو سلیمان سکندر کی طرح سیاسی چومکھ پر آمادہ تھے، نہ تو قائدِ بے بدل خلیل اللہ حسینیؒ کی جوشیلی گھن گرج کا استعمال کر رہے تھے۔ مولانا کی تقریر سہل انداز میں اور مسائل کو سلجھانے والے طریقۂ کار کی نشان دہی کرتی ہے۔ انھوں نے حیدرآباد سے اپنے دیرینہ تعلق کا بھی ذکر کیا۔ اور مسلمانوں کی عالمی برادری کے زیر و بم سے بھی واقفیت فراہم کی، ان کی باتوں نے عوام کا من موہ لیا وہ تقریباً ایک یا سوا گھنٹہ بات کرتے رہے۔ میں اس وقت زندگی کو سمجھنے کی کوشش کر رہا تھا۔ مجھے ایسا لگا کہ ہاں مسلمانوں میں ایسے بھی عالم موجود ہیں، ہم جن کی فکر اور رہنمائی پر مکمل اعتماد کر سکتے ہیں۔
٭٭
مولانا ایک خانقاہی نظام کے پروردہ تھے لیکن انھوں نے:
سلطنت دست بہ دست آئی ہے
جامِ جم خاتمِ جمشید نہیں۔۔ ۔ !
کے رویے کو پیشِ نظر رکھا۔ مولانا کا خاندان ’’سادات رائے بریلی‘‘ کا مشہور خانوادۂ علم و عمل تھا۔ یہ خانوادہ ہمیشہ مذہبی طور سے متحرک رہا، چاہے درباروں میں چاہے مدرسوں میں۔ اس خانوادہ کے اہم ناموں میں مولانا سید احمد شہید بریلوی کا نام تاریخِ ہند میں روشن ستارہ کی طرح ہے۔ مولانا کے والد حکیم سید عبدالحئی مرحوم کے بارے میں علامہ سید سلیمان ندوی مرحوم یوں رقم طراز ہیں:
’’۔۔ ۔ ندوۃ ان کی خدمات سے کبھی محروم نہ رہا۔ ندوۃ پر کیا کیا انقلابات آئے، کتنے فتنے اور حوادث پیدا ہوئے۔ مگر ان تمام حالات و حوادث کے طوفان میں ثبات و استقلال کی صرف ایک چٹان تھی جو اپنی جگہ پر تھی اور وہ مولانا سید عبدالحئی صاحب کی ذات تھی۔‘‘
(یادِ رفتگاں)
مولانا حکیم سید عبدالحئی مرحوم کی دوسری بیوی کے بطن سے ہیں، اور وہ خاندان کے علمی سرمائے اور انتظامی مسؤلیت کا ایک نمائندہ چراغ بن کر سامنے آئے۔ مولانا نے علمی، ادبی، تحقیقی اور تبلیغی دورے نہ صرف ہندستان کے ابعاد میں بلکہ دنیا کے کئی ممالک میں کیے۔ ان کی تشنگی اور ان کا جذبۂ دعوت دونوں ہی انھیں رواں دواں رکھتے۔ بہ قول میرؔ:
سب پہ جس بار نے گرانی کی
وہ بھی یہ ناتواں اٹھا لایا
مولانا ابو الحسن علی ندوی مرحوم نے عربی زبان میں تحریر و تصنیف کو اولیت دی، ان کی لکھی ہوئی کتابیں اور رسائل آج بلادِ اسلامیہ کے تمام کتب خانوں اور مدارس میں دستیاب ہیں۔ یہ کتابیں نہ صرف تدریس کے لیے استعمال کی جاتی ہیں بلکہ حوالہ جات اور تقابلی مطالعوں میں ممد و معاون ہوتی ہیں۔ مولانا نے کئی وفودِ اسلامی کی رہنمائی و رہبری کی اور مختلف اسلامی اجتماعات اور کانفرنسوں سے تخاطب بھی کیا۔ جن میں رابطۂ عالم اسلامی، موتمر اسلامی، اسلامی کانفرنس کا ذکر بھی کیا جا سکتا ہے۔
مولانا کا طرزِ تحریر سادہ، علمی اور متوازن اردو پر مبنی تھا، وہ ثقیل الفاظ مرعوب کن لفاظی، لسانی داؤ پیچ اور تخلیقی طرزِ بیان سے بعید تھے۔ ان کی تحریر میں بیانیہ تسلسل تھا جو کہ عموماً تدریسی مقالات کے ڈکشن میں ہوتا ہے۔ اسی لیے ان کی کتاب کا قاری کسی نادر تحریر یا کسی دل فریب زبان دانی کی امید نہ رکھتا جو کہ ابو الکلام آزاد، محمد حسین آزاد، سید سلیمان ندوی یا تاجور نجیب آبادی کی نثر سے ممکن تھا۔ ایک حد تک مولانا کا اسلوبِ بیان مولانا اشرف علی تھانوی کے اسلوبِ بیان سے قریب تر تھا گوکہ ندوۃ العلماء کی نہج اس پر محیط ہو گئی تھی۔
یہ میں اس لیے بھی کہہ سکتا ہوں کہ خود میرے والد مرحوم کے ماموں جناب ابراہیم عمادی ندوی مرحوم کا اسلوبِ نگارش بھی اسی طرح کا تھا۔ ان کی کتابوں میں بھی یہی مدھم مدھم طرزِ بیان ملے گا۔
مولانا نے تقریباً ۱۳۷ (بلکہ بہ قول مولوی سید رضوان علی ندوی ۱۷۶) کتب و صحت کو تصنیف کے زیور سے آراستہ کیا۔ اتنی کتابیں!! بلاشبہ عظیم فکری اور تحریری صلاحیت کی غماز ہیں۔ ان کی ایک کتاب ’’کاروانِ مدینہ‘‘ مجھے ایک بار سفرِ عمرہ کے دوران کسی نے دی۔ میں اس کتاب کا ذکر ضرور کروں گا کیوں کہ فی الوقت رائج ماحول میں عشق و نعتِ رسولﷺ پر مبنی تحریریں عنقا ہوتی جا رہی ہیں۔ مولانا کی یہ کتاب بے حد علمی ہونے کے باوجود شوق اور گرمیِ جذبہ کی آئینہ دار ہے۔
اس کتاب کے عنوانات ہی اس کی جھلک دے سکتے ہیں۔ صورِ زندگی، عالمِ نو، غارِ حرا میں روشنی، نبوت کا کارنامہ، نبوت کا عطیہ، امت کے وفود آقاؐ کے حضور میں، سیرتِ محمدیؐ کا پیغام بیسویں صدی کی دنیا کے نام، سیرت کا پیغام: موجودہ دور کے مسلمانوں کے نام، اقبال درِ دولت پر، حضورو سرور، حدیثِ مدینہ، سید العرب و العجم کے حضور: فارسی شعرا کی نذرِ عقیدت اور اردو شعرا کی نذرِ عقیدت۔
گویا ان عناوین سے ہی اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ سرکارِ مدینہﷺ کے شہر، ان کے اسوہ اور ان سے عشق کے کئی پہلو اس کتاب میں درج ہو گئے ہیں۔
اس کتاب پر استاذ علی الطنطاوی نے کیا خوب لکھا ہے کہ:
’’ادب کی طرف سے بھی میرا اعتماد اٹھنے لگا تھا۔ چوں کہ ادیبوں میں وہ آسمانی نغمہ عرصے سے نظر نہیں آیا، جس کی لَے شریف رضی کے وقت سے لے کر عبدالرحیم برعی تک شعرا گاتے رہے۔ جب میں نے آپ کی کتاب پڑھی تو یہ کھویا ہوا نغمہ پھر مجھے مل گیا، یہ نغمہ مجھے آپ کی اس نثر میں ملا جو کہ حقیقتاً شاعری ہے۔ لیکن بے ردیف اور قافیہ کی شاعری۔
برادرم ابو الحسن! آپ کا صد ہزار شکریہ کہ آپ نے دوبارہ میرے اندر اپنی ذات اور اپنے ادب پر اعتماد بحال کیا۔۔ ۔‘‘
مولانا کی کتابوں میں یہ واحد کتاب ہے جس پر جذبے نے نثر پر رنگ آمیزی کا کام کیا ہے۔ اس کتاب کے سیاق و سباق میں محمد حسین آزاد کی طرزِ تحریر کا اثر بھی نظر آتا۔ میں تمام زائرین حرمِ نبیﷺ کو رائے دوں گا کہ وہ اس کتاب سے ضرور مستفید ہوں۔
مولانا کی ایک اور کتاب جو ان کی تصانیف میں تاریخ دعوت و عزیمت کے بعد بہت اہمیت حاصل کر چکی ہے وہ ہے ’’المرتضیٰ۔۔ کتاب ’’المرتضیٰ‘‘ حضرت علی کرم اللہ وجہہ کی سوانحِ حیات سے شروع ہو کر کچھ حد تک تاریخِ سادات کا احاطہ کرتی ہے۔ یہ ایک ایسی مستقل کتاب ہے جس میں حضرت علیؓ کے بچپن کے اہم واقعات بھی درج ہیں اور قبل از خلافت اور بعد از خلافت کے اہم کارنامے بھی۔ ایک زمانے سے ایسی مدلل اور جامع کتاب کی ضرورت محسوس کی جا رہی تھی جو باب العلمؓ کی عظمتوں کا خاطر خواہ جائزہ لے سکے۔
٭٭
اس سال جب میں حیدرآباد چھٹیوں کے سلسلے میں گیا تو وہاں سے مولانا کی ایک اور نایاب کتاب لے آیا وہ کتاب ہے ’’نقوشِ اقبالؔ‘‘۔ اقبالؔ ہند و پاک میں کئی اصحابِ علم و قلم کا موضوع رہ چکے ہیں۔ میری ادبی دل چسپی یہ رہی کہ دیکھیں ایک عالمِ دین اقبالؔ کی فکر و نظر کے بارے میں کیا کہتا ہے۔ مولانا علی میاں نے اسی طرزِ ادا سے علامہ اقبالؔ کا جائزہ لیا ہے جو ان کا منفرد انداز ہے۔ لیکن اس کتاب سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ مولانا کی اسلامی ادب پر بڑی گہری نظر تھی، ان کا مطالعہ وسیع تھا اور تخلیقِ فن کی نازک لہروں سے بھی وہ بہ خوبی واقف تھے۔ یہ کتاب جو حقیقتاً عربی میں تصنیف ہوئی تھی بہ نام ’’روائع اقبالؔ‘‘ مولوی شمس تبریزی خان نے اردو میں پیش کی ہے۔ لیکن ترجمہ اصل سے اور مصنف کے طرزِ تحریر سے قریب ترین ہے۔ اس کتاب میں جو مضامین شریک ہیں ان کی نسبت امتِ مسلمہ سے متعلق موضوعات سے ہے۔ اقبال کی شاعری کے وہ پہلو جو ان کی بصیرت اور عالمی سیاست پر عبور کی دلیل ہیں۔
اس مضمون میں بین طور پر پیش کیے گئے ہیں۔ اقبال کی نظموں میں بحور و اوزان کا انتخاب، مصمتوں اور مصوتوں سے پیدا کردہ آہنگ، انگریزی نیچرل شاعری سے اخذ کردہ نظم گری کے انداز اور اس طرز کے خالص ساختیاتی موضوعات کو زیرِ بحث نہیں لایا گیا ہے لیکن اردو شاعری میں اقبالؔ کی اہمیت، ان کا انشا کردہ اسلامی ادب اسکول اور ان کی شاعری کے عناصر کو موضوع بنایا گیا ہے۔ مولانا علی میاں کا رویّہ اس کتاب میں ایک متعلم کا ہے، ناقد کا نہیں اور اس طرح انھوں نے متکلم کی جگہ حاضر کا مقام اپنے لیے منتخب کیا ہے۔ یہ علماء کا با ادب اور با وقار اندازِ تحریر ہے۔ مولانا کی اس کتاب پر جناب رشید احمد صدیقی مرحوم کا یہ تبصرہ بڑی اہمیت رکھتا ہے:
’’سید صاحب کے ایک متبحر اور روشن خیال عالمِ دین اور شعر و ادب کے مبصر ہونے کی حیثیت سے کسی کو انکار نہیں ہو سکتا۔ موصوف نے اقبال کی تائید اور ترجمانی جس خوبی سے کی ہے، اس سے میرے ایک دیرینہ خیال کی تصدیق ہوتی ہے کہ اقبال کا کلام ہمارے لیے اس صدی کا علمِ کلام ہے، جو ایک نامعلوم اور طویل مدت تک تازہ کار رہے گا۔۔ ۔‘‘
l
اس کتاب یعنی ’’نقوشِ اقبالؔ‘‘ میں مولانا نے ملتِ اسلامیہ کے انحطاط اور اس ملت کے درپیش مسائل کو علامہ اقبال کی شاعری کے عدسہ سے دیکھنے کی کوشش کی ہے اور اس میں خاصے کامیاب بھی ہیں ان کے منتخب عناوین میں عصری نظامِ تعلیم کی اسلامی زندگی سے مطابقت، دین داروں میں بھی دینی روح کا فقدان، مسلمان پر عالمِ نو کی معمار کی ذمہ داری، ماضی و حال کے تقابل اور پھر ان عناصر کا جائزہ جنھوں نے اقبال سے ان کی نمائندہ نظمیں لکھوائیں قابلِ ذکر ہیں۔
بلاشبہ مولانا ابو الحسن علی ندوی ایک باصفا، جامع صفات، نابغۂ روزگار اور مجموعۂ علوم شخصیت تھے۔ ان کی تحریر، تقریر اور عملی زندگی اس بات کا ثبوت ہے کہ وہ ساری دنیا کو صراطِ مستقیم سے روشناس کرنے کے لیے تگ و دو کرتے رہے۔ وہ اس عظیم اسلامی روایت کے پاس دار بھی تھے جو علم، ادب، حکمت اور سیاست پر احاطہ کرتی تھی حکیمی، باریک بینی اور گہرائی کے ساتھ۔
مولانا ابو الحسن علی ندوی مرحوم اپنی بصیرت کی بنا پر بلند سطح پر فائز تھے اور اس سطح سے اپنے منتخب موضوعات کو تدقیق و تحقیق سے نوازتے تھے۔ ان کا نام تاریخِ عالم میں:
’’ثبت است بر جریدۂ عالم دوامِ ما‘‘ کا مصداق رہے گا۔
٭٭٭