غیاث متین کی شاعری سے آج سے ۱۴ برس قبل واقف ہوا تھا، جس بات نے مجھے متوجہ کیا تھا وہ اس کے لہجے کا بکھراؤ اور کھردرا پن تھا دوسری قابلِ ذکر بات اس کی نظموں کی سادہ لفظیات اور پُر اسرار خود کلامی تھی وہ ہمیشہ کی طرح آج بھی کم لکھتا ہے اور کم چھپتا ہے اس لیے جب میں نے سنا کہ غیاث کا مجموعہ زیرِ طبع ہے تو تجسس سا محسوس ہوا کہ آخر اس کی نظمیں ہی کتنی ہیں کہ مجموعہ بن سکے۔ (اور پھر چند نظمیں ابتدائے عشقِ سخن کی تھیں مثلاً وہ نظمیں جو صبا، پیکر اور آبگینے میں شریک تھیں اکثر منسوخ و تنسیخ کے زمرہ میں آتی تھیں) لیکن جب غیاث کا مجموعہ ہاتھ میں آیا تو ۱۲۰ صفحات کی گواہی کافی لگی۔
غیاث نے اردو کو پیار سے پڑھا ہے اور اپنے ذوق کا ثبوت کامیابیوں کے ذریعے پیش کیا ہے۔ اس کی دوست داری کا بھی جواب نہیں۔ پہلی بار اس سے میں ۱۹۷۱ء کے ابتدائی مہینوں میں ملا، اس کی باتوں میں شاعرانہ تمازت ملی۔ مسرت ہوئی کہ کچھ لوگ میری طرح سوچتے ہیں اور میری طرح کے کرب میں مبتلا ہیں۔ ہاں، زاویوں میں جداگانہ کاٹ تھی۔ حیدرآباد کے دوسرے شاعروں اور ادیبوں سے بھی اسی عرصہ میں ملاقات ہوئی۔ میں نے اردو شاعری کو قدم بہ قدم پڑھا تھا۔ آبِ حیات سے شروع ہو کر میر، مومن، انشاء، سودا، ذوق، غالب سے اقبال تک، مجاز سے ساحر تک، تصدق حسین خالد سے میرا جی، ابن انشا سے جیلانی کامران تک، بہت سے شاعروں کے کلام کو اس کے نظریے اور سوانح کی روشنی میں پڑھا تھا اور اسی لیے جب راشد سے منیب الرحمن تک آیا تو نئی شاعری مجھے اب نیا رجحان لگا۔ جو میرے مزاج سے ہم آہنگ تھی اور اس لیے نئی شاعری مجھے تلخ طور پر نہیں بلکہ اردو شعر و ادب کی نئی جہت کی طور پر ملی۔ ان احباب میں کچھ کا مطالعہ تو مجھ جیسا تھا، لیکن بیش تر نے مطالعے کو نئی شاعری پر مرکوز کر دیا تھا اور اب جگر اور فراق کو بھی شاعر ماننے کو تیار نہ تھے۔ کلاسیک سے یہ بڑا فروختگی کا عالم مجھے دفاعی بنا رہا تھا۔ اعظم راہی، حسن فرخ، فکری بدایونی، یوسف کمال، عبدالحلیم (جو اب ماجد حلیم ہے) انور رشید، رؤف خلش ان چند لوگوں میں تھے جو سوچ بھی رہے تھے، لکھ بھی رہے تھے۔ آج ان میں سے کچھ خاموش ہیں کچھ ابھی سوچ رہے ہیں اور کچھ انسلاک کی حد تک تحریک پسند ہو گئے ہیں۔ ان احباب میں غیاث کی ذہنی سمت واضح تھی کہ اس نے شاعری کے فارم پر فیصلہ کر لیا تھا کہ نظمِ معریٰ ہی لکھے گا اور الفاظ کے معاملہ میں محتاط اور تزئین پسندانہ رویے سے انحراف کرے گا۔ اس کی نظموں میں اس کھردرے پن، جذباتیت کی کمی اور الفاظ کے عمومیت کا تلازمہ ملتا ہے۔
غیاث کی شعری نظر ایک ڈرامہ نگار کی نظر ہے جو ایک ایک کردار کو غور سے پڑھتا ہے، اس کے جسم کو روح کا آئینہ جان کر پڑھتا ہے، لیکن اس کے درون کی آنچ کو چھونا نہیں چاہتا، اس کردار کے چہرے کے تاثر کو اس آنچ کی روشنی میں پڑھتا ہے۔ اس کی نظم ’’تم‘‘ میں اس کے شعری رویے کی جھلک ملتی ہے۔ وہ اکثر سوچتا ہے کہ ’’اوپر کی پرتوں میں تم کو ڈھونڈنے والے / کیا پائیں گے‘‘۔ پھر خوب صورتی کے ساتھ اجمال کی جانب آتا ہے کہ ’’خالی ذہنوں کی چیخیں / اور صدیوں کی نیند‘‘ گویا غیاث نے کردار کے دونوں رخوں اور ان کے درونی تاثر کا مطالعہ کیا ہے۔ کردار کے دو رخ اس کا ضمیر اور اس کا چہرہ ہیں اور تاثر کو محسوس کرنے کے لیے شاعر چہرے کے نقوش، آواز کے موڈولیشن اور گفتگو کی گہرائی کو منتخب کرتا ہے۔ کبھی یہ کردار واحد ہے تو کبھی جمع۔ کبھی میں، تو کبھی تم۔
غیاث کی گفتگو ’’تم‘‘ سے ہے کبھی ’’تم‘‘ اس کا ہم زاد ہے تو کبھی ’’تم‘‘ وہ کردار ہے جو سوچ سے پر ہے لیکن انا کی شکستگی سے ایک سایہ بن گیا ہے۔ وہ ’’تم‘‘ جو مر گیا ہے لیکن زندہ ہے۔ وہ تم جو اپنی ذات کو سنگ سار کر رہا ہے، ایک ایسا ’’تم‘‘ جو مکھوٹے پہن کر بھی پہچانا جاتا ہے اور یہی ’’تم‘‘ ’’میں‘‘ بن جاتا ہے۔ تو ’’میں‘‘ ابھی ایک ڈرامہ کا کردار ہے، ایک ایسے ڈرامے کا کردار جس میں کوئی تحریک نہیں، جس میں کوئی تیز قدمی نہیں جس میں وہ اکیلا ہے اور اسی کی حرکات مطالعہ ہو رہی ہیں، اسی کی درونی کیفیت زیرِ گفتگو ہے، اس کی ہی روح بے کیفی کا شکار ہے۔ غیاث کی نظمیں بیش تر مکالماتی ہیں یہ مکالمے ایبسٹریکٹ انداز سے ہیں لیکن مبہم بھی ہیں، کہیں کہیں شب و روز کی اس زنجیر سے شاعر گھبراتا ہے۔ اس کے پاس کبھی ’’دن، رنج و محن کی علامت ہے تو کبھی دن رات کا ایک بدلا ہوا چہرہ ہے۔ وہ رات جو دن کے بھیس میں آ کر ’’تم‘‘ کو اور ’’میں‘‘ کو دھوکہ دیتی ہے وہ رات جو دن کی شکل میں آ کر جسم میں زہر کی طرح سرایت کر جاتی ہے۔
انسان کیا ہے؟ یہ کردار کیا ہے؟ یہ نقلی ڈھانچوں کا ایک جمگھٹا کیا ہے؟ جو سماجی جنگل میں علائم کا ایک مرکز ہے، توہمات کا ایک منبع ہے اور یہ لٹکا ہوا ہے کبھی مسیح کی طرح مقدس، کبھی بے جان Scarecrow کی طرح۔ تبدیلیوں سے غیاث مطمئن نہیں، وہ تبدیلیوں کو بھی دن اور رات کی طرح ایک نا پائیدار زنجیر سمجھتا ہے وہ اپنی خانہ ویرانیوں پر حیران ہے۔ اپنی ذات کی شکست پر حسرتِ دمیدہ ہے اور ایسے ہی مایوس اور تنہا لمحہ میں اپنی بے بسی کا ماتم خواں ہے۔ غیاث کی شاعری میں وہ تمام موضوعات ہیں جو نئی شاعری کے ساتھ ساتھ آئے۔ اس کی وجہ یہ بھی ہے کہ غیاث اس وقت سے خالص طور پر نئی شاعری کر رہا ہے جس وقت سے نئی شاعری کی آواز نے استناد کا دعویٰ کیا تھا۔
غیاث کی نظموں میں آہنگ نثر سے قریب تر ہے اور ان نظموں کا صوتیات سے گہرا تعلق ہے، آواز کے اتار چڑھاؤ سے اس کی نظموں میں ایک خاص گہرائی پیدا ہوتی ہے، سکوت و سقوط چند مصرعوں کے اور کلیدی استعارات کے ساتھ اگر استعمال نہ کیے جائیں تو شاعری کا وہ نادر حسن محسوس نہیں ہوتا، جو مکالماتی نظموں کا خاصہ ہے۔ غیاث نے اپنے ڈکشن میں اس حسن کو سمو دیا ہے۔
غیاث کی زبان میں یکایک بلکہ اچانک طور پر ایسے الفاظ کا استعمال جو شاعری میں عموماً رائج نہیں ہیں ایسا دو ذہنی کیفیات کی وجہ سے ہو سکتا ہے، ایک تو یہ کہ نظموں میں موڑ پیدا کیا جائے اور اس میں خاص کاٹ پیدا ہو کہ قاری / سامع چونک اٹھے۔ دوسرا یہ کہ اس میں طنزیہ پہلو سخت ہو کر سامنے آئے۔ یہ جملے اور الفاظ کچھ اس طرح استعمال میں آتے ہیں کہ نظموں میں انوکھا اسلوبیاتی ماحول پیدا ہو گیا۔ مثال کے طور پر نظم ’’تم‘‘ بھی عجیب میں۔
اور کابک میں بیٹھے ہوئے
غٹر غوں غٹر غوں
اور
دیا سلائی کے پیچھے چپکے چپکے ہوئے،
ریڈ نائٹ وہسکی کے اشتہار کو
ریزہ ریزہ کر دیتا۔۔ ۔۔
(خود شناسی کی ایک نظم)
اپنے سائے سے ڈر کر کہتی ہیں فصلیں
سانپ اگاؤ
جتنے بھی مینڈک ہیں ان کو باہر بھیجو
(کچی اینٹوں کے پل)
’’سن تو سہی‘‘ کے تحت شاعر کہتا ہے ’’میں جذبات کے ذریعہ نہیں لکھتا، بلکہ الفاظ کے ذریعہ لکھتا ہوں یعنی یہ کہ تجربے کو الفاظ کی شکل میں محسوس کرتا اور لہجہ کے ذریعہ اس کے اظہار کی سکت رکھتا ہوں‘‘ اس خود احتسابی کا پہلا حصہ یہ ہے کہ غیاث یہ سمجھتا ہے کہ ’’وہ جذبات کے ذریعہ نہیں لکھتا‘‘ حالاں کہ میری نظر میں اس کی ہر نظم جذبات کا اظہار ہے فرق یہ ہے کہ جذبات اتنے گہرے نہیں ان میں آگ کی تیزی نہیں، آنچ ہے۔ اس کے انداز میں وہی کھوکھلا پن ہے جیسا ایک نئے دور کے شخص کا احساس ہوتا ہے کہ وہ غم زدہ ہے لیکن اس کا غم اس کے اعصاب پر سیاہ سانپ کی طرح حملہ زن نہیں۔ الفاظ کے بارے میں غیاث کا جو تصور ہے وہ اس کی شاعری میں کھل کر سامنے نہیں آتا وہ الفاظ کو گنجینۂ اسرار و معانی کی طرح نہیں، اسلوبیاتی آئینہ کی طرح برتتا ہے۔ اس کی شاعری میں شہری زندگی میں مستعملہ الفاظ کو ہی وسیلہ بیان بنایا گیا ہے۔
غیاث متین کی نظموں میں اکثر بیش پہلو علامات استعمال ہوئی ہیں اور اکثر نظمیں واحد علامت کے انکشاف پر مبنی ہیں جن میں شاعر علامت کا ایک ایک پہلو کھولتا جاتا ہے، اسے ایک خاص زاویے سے منعکس کرتا ہے اور پھر اس علامت کو اپنے انشراح میں ضم کر لیتا ہے۔ اس کی منتخبہ بیش پہلو علامت، علامت اور استعارہ کے درمیان ہوتی ہے اور اس لیے قرین قیاس ہوتی ہے لیکن جب کسی پہلو کا انکشاف ہوتا ہے تو شاعر ارادی طور پر عجوبیت پیدا کرتا ہے اور چند ایسی عنقا تشبیہوں کو پیش کرتا ہے جو ندرت پیدا کرتی ہیں۔ چوں کہ شاعر ارتکاز کا شائق نہیں اس لیے وارداتِ قلبی ایک خالص لفظی ترتیب میں برپا ہوتی ہے اور اسی لیے ہمارے احساسات سے تعمیم کی حد تک ہم آہنگ ہوتی ہے اور یہی غیاث کی شاعری کا بین رویہ ہے۔
اسی طرح جب آپ غیاث کی نظموں سے گزریں گے تو آپ کو جگہ جگہ وہ موضوعات ملیں گے جو آپ کے فکری نظام کو قریب سے چھو کر گزر گئے ہیں۔
غیاث بوڑھی پیڑھی سے بضد ہے کہ اس کو ایک وجودی اکائی سمجھا جائے اور اس ضد میں کبھی وہ دلیل اور تمثیلی تناظر سے وکالت کرتا ہے تو کبھی بوڑھی پیڑھی کو روندی ہوئی راہوں پر چلنے سے متنبہ کرتا ہے کبھی روایات کو شجرِ خشک کے مماثل بتاتا ہے تو کبھی واسوخت سے بڑھ کر تلخ گو ہو جاتا ہے۔ اس کی نئی نظمیں اس ’’روایت سے بغاوت بلکہ تنفر‘‘ کی قوت سے پُر ہیں۔ اس کا اظہار بالواسطہ اور پس منظر کچھ اس قدر ارسال سے قریب تر کہ آپ موضوع کی رنگت کو پہچان سکتے ہیں۔ گویا ابہام نہیں ہلکی پردہ پوشی ہے۔
وہ تھکے ماندے پیش رو سے کہتا ہے کہ:
’’تم سے کس نے کہا تھا
کہ اس دوڑ میں
ہانپتے ہانپتے
تم بھی شامل رہو‘‘ اور پھر
گوں گی دیواروں کی بستی سے پرے
ایک جنگل ہے
جہاں
کچھ بات کرتے پیڑ ہیں
جن کے پیروں سے بندھے ہیں تار
سینوں سے لگی ہیں تختیاں
جن پہ کوئی نام لکھا ہے
رستے کا نشاں
اور وہ ہیں ’’سوچتے ٹیلیوں پہ منڈلاتے ہیں گدھ‘‘
غیاث اپنی شاعری میں چند ایسے علامتی نشانات کو دوسرے شاعروں کے کلام سے اخذ کر کے استعمال کرتے ہیں جو ان شاعروں کے ناموں سے ممتاز ہو چکے ہیں۔ اس کا سبب غالباً غیاث کا وسیع المطالعہ ذہن اور ذوقِ انتخاب ہے۔ مثلاً علی ظہیر کی ’’آنکھ کی پتلی‘‘، نم راشد کی ’’سلیمان و صبا‘‘، وحید اختر کی نظم ’’پتھروں کا مغنی‘‘، کا سا انداز ’’کچی اینٹوں کے پل‘‘ میں ’’پینتھر، ابابیلیں اور ہاتھی‘‘ میں عمیق حنفی کی نظم ’’ٹہٹر کے انڈے کا انداز‘‘، ’’مٹی نے رسوا کر دیا‘‘ میں حیدرآباد کے واقعہ کی تلمیح جسے ’’رؤف خلش نے واہمہ پانی کا، کی خوب صورت شعری تخلیق میں استعمال کیا۔ ’’لمحے کی موت‘‘ میں مصحف اقبال توصیفی کی نظم ’’وہ آ رہا ہے‘‘ کا سا انداز وغیرہ وغیرہ۔ کہنے کا مطلب یہ ہے کہ غیاث کا جدید اردو شاعری سے گہرا رشتہ ہے اس نے جدید شاعری کا مطالعہ بہت گہرائی سے کیا ہے اور اس میں نظریاتی ریاض کیا ہے اور جن پیکروں سے اس کی ذہنی مناسبت ہے وہ اس کی نظموں میں خلوص سے سامنے آ جاتے ہیں لیکن نئے لباس اور عجیب انداز میں۔
غیاث کی کئی نظمیں اپنے حسن اور شعری ندرت کی وجہ سے قابلِ ذکر ہیں۔ ان نظموں میں ’’پتھروں کی نیند‘‘، ضدی کا غم، کچی اینٹوں کے پل، خاص پانیوں کی آس میں، آسیب زدہ، پانی پانی آئینہ، واہمہ، سیڑھی، ویسا ہی تو ہے، حکایت خلق کی، تمھیں پتہ بھی ہے، زینہ زینہ راکھ اچھی نظمیں ہیں اور نئی شاعری کی نمائندہ نظموں میں کہی جا سکتی ہیں۔ چند نظموں کو (میرے خیال میں) اگر سخت انتخاب کے تحت خارج رکھا جاتا تو بہتر تھا۔
غیاث کی نئی غزل کئی وجوہ کی بنا پر اس کے غزل گو ہونے کی نشان دہی کرتی ہے۔ اس کی اہم وجہ یہ بھی ہے کہ غیاث تفصیل کے مقابلے میں اختصار پر قادر ہے اور اس میں اس کی شعریت میں ارتکاز پیدا ہوتا ہے اور عمیق شعری قوت پیدا ہوتی ہے۔ اس کے اچھے اشعار کی مثالیں لیجیے۔
دھول رستے کا مقدر ہے تو رستہ کیا ہے؟
اک یہی بات زمانے کو بتانے نکلے
جب سمندر پہ چلے ہم تو یہ صحرا چپ تھے
اب پہاڑی پہ کھڑے ہیں تو بلانے نکلے
اڑ جاؤ شاخ سے کہ وہ موسم نہیں رہا
سوکھا ہے پیڑ، تیز ہوا، جھولتے ہو کیوں؟
ہم تکا کرتے ہیں کھڑکی سے اترتے چاند کو
دوڑ کر اس کو پکڑ لیں، یہ کبھی ہوتا نہیں
سمندر دانہ دانہ جب بکھیرے
سمندر میں اتر جاؤ پرندو
تمھارے واسطے یہ آسماں ہے
زمیں پر تھوکتے جاؤ پرندو
آسماں کی بھیڑ میں تو اس لیے سوچا گیا
اس زمین کی چھاتیوں سے نور کا چشم اگا
مجموعی حیثیت سے غیاث متین کا مجموعہ ’’زینہ زینہ راکھ‘‘ خوب ہے اور اس کی فعال شاعرانہ صلاحیتوں کا آئینہ دار ہے۔ فی الحقیقت اردو نئی شاعری کی ایک نئی آواز ہے۔
میں غیاث کو اس مجموعہ کی اشاعت پر مبارک باد پیش کرتا ہوں، اس مجموعہ کی خوب صورت کتابت و طباعت کی تحسین بھی لازم ہے۔
٭٭٭
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...