’’سخن‘‘ ایک ایسے شاعر کے افکار کا منظر نامہ ہے جس کا نقطۂ نظر واضح ہے اور جس کی فکری جہات مثبت اقدار کی تنبیت اور تحفظ، وطن دوستی، حق گوئی و بیباکی، دوست داری، اردو پرستی اور قوم پرستی کے جذبات سے متعلق ہیں۔ اس منظر نامہ میں ایسی ہی بو قلموں حسیت کے مناظر آراستہ ہیں۔
میرے محترم دوست وقار خلیل حیدرآبادی تہذیب کے ان حاملین میں سے ہیں جن کی زندگی، گفتار اور سوچ سب میں اسی تہذیب کی توانائی ملتی ہے۔ حالات کے حقائق، تہذیب کا انتشار، اردو کا حالِ زبوں، بنیادی انسانی قدروں کی پامالی اور آزادی کے بعد مفروضہ نتائج کے نہ حاصل ہونے پر احساسِ حسرت اور ایسے ہی تلخ تجربات سے گزر کر ان کے کلام میں غیر محسوس طور پر تلخی اتر آئی ہے کبھی کبھی تو یہ تلخی اظہار، نا آسودگی اور مکر و فریب سے حد درجہ تنفر میں مدغم ہو کر جارح تنقید کی شکل اختیار کر لیتی ہے۔
’’سخن‘‘ میری توقع سے کم ضخامت رکھتا ہے اس لیے کہ اس مجموعہ میں بسط و عمیق مضامین کو اختصار سے پیش کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ اس مجموعہ کے مشمولات میں وقار کی مسائل سے جڑی ہوئی نظمیں درونِ خانہ قسم کی نظمیں اور موقع کے مطابق و مناسبت سے نظمیں ہیں اور اس کے علاوہ ان کی معنی خیز لفظیات سے پُر غزلیں ہیں۔
وقار خلیل اپنی نظموں میں ایک خاص اسٹرکچر کا خیال رکھتے ہیں اختصار کے لیے حروفِ عطف اور فعل کا محتاط استعمال، آہنگ کا ایک مدھم رو میں تموج، خطابت آمیز لہجہ اختتام پر ایک معنی خیز جملے کا اہتمام یہ کم و بیش ان کی ہر نظم میں ملتے ہیں۔
اس مجموعہ میں شریک نظموں میں ۲۵ فی صد نظمیں ایسے ہیں جو سراسر اظہارِ ذات پر مبنی ہیں۔ باقی نظمیں مقصدی اور موقعتی قسم کی ہیں۔ ان نظموں میں قابلِ ذکر ہیں نعتِ رسولﷺ، شہر جلتا رہا، رام کے نام پر، سلامتی کی نظم، بچے: ڈالی ڈالی پھول اور آرزو۔
نعتِ رسولؐ میں دعائیہ انداز ہے جس میں وقار سراپا نیاز مندی و عشق ہیں، جو پُر درد اظہار پر مبنی ہے جو عقیدتاً ایک خاص مکتبِ فکر کا آئینہ دار ہے:
میں قدموں سے لپٹ جاؤں کفِ پا بن کے جی اٹھوں
اگر مل جائے دامن کا سہارا یا رسول اللہ
دکن میں بے زمینی جی رہا ہے آپؐ کا شاعر
کرم کا ایک ادنیٰ سا اشارہ یا رسول اللہ
آج ہندستانی مسلمان جس طرح جنون، بنیاد پرستی اور تفریقی سیاست کے سامنے چراغِ وفا جلائے ہوئے ہے اس کی اب سادہ سی جھلک ’’رام کے نام پر‘‘ میں ملتی ہے۔ جس میں زخمی اور بجھے بجھے لہجہ میں شاعر نے ایودھیا پر موجود جامع مسجد کے شہید ہونے پر رنج کا اظہار کیا ہے۔ اس طرح ’’شہر جلتا رہا‘‘، ’’رام کے نام پر‘‘ بلکہ بیش تر اس قبیل کی نظمیں اس ناقابلِ فہم سیاسی اور فساد و فتنہ کے ماحول پر تبصرہ ہیں۔
وقار کی اظہارِ ذات پر مبنی نظموں میں ان کی ذات کا وہ سادہ و گہرا پہلو سامنے آتا ہے جس میں ماضی سے خلوص ملتا ہے تو مستقبل سے یک گونہ خوش امیدی بھی زندہ ملتی ہے۔ مثلاً:
کیا لوگ تھے، کیا ریت تھی
سب ایک تھے، شیر و شکر
۔۔ ۔۔
موسم ذرا بدلے تو پھر
یہ رہ گزر گلنار ہو
دل کا نگر آباد ہو
(ایک نظم، ایک دعا)
نشاطِ نو کی الجھن کو سمجھنا ہے
رُتوں نے بادبان کھولے تو ہیں
۔۔ ۔۔
آگہی نروان پا جائے
ادھر ایسا اگر ہو
(نئے موسم ایک نظم)
جدید تر صنعتی دور میں جس طرح اقدار سے ہٹ کر انسان کا زاویہِء عمل محنت کشی پر مرکوز ہو کر رہ گیا ہے، اس سے انسان ایک طرح سے ضرورتِ زندگی کے استعمال اور حاجات کی پابجائی کے لیے سرمایہ کار کے سامنے ایک کار پرداز مشین میں تبدیل ہو کر رہ گیا جوا پنی محنت، تگ و دو اور ذہانت کو کبھی بھاؤ تاؤ کر کے، کبھی ہتھیار ڈال کر ایک معینہ بلکہ کبھی کبھی غیر معینہ مدت کے لیے رہن رکھ دیتا ہے۔ ایسا سماج اقدار، داخلی واردات اور اصول و براہین کو اپنی راہ میں تضیعِ اوقات سمجھتا ہے اور مجہول رویہ گردانتا ہے۔ اس تلخ اور مصروف و مشغول لیل و نہار میں شاعر بجا طور پر محسوس کرتا ہے کہ:
دن بہ ہر حال ہر دن کی مانند گزرا کیا
مضمحل، مشتعل، گہ خراماں، رواں
آخرش رات کی گود میں آ گرا
۔۔ ۔۔
۔۔ ۔۔
جزر و مد، اس کے سینے پہ چادر مچلنے لگی
بند کھڑکی ہوا سے کھلی
صبح صادق کے ہنگام میں نیند آنے لگی
سچ ہے، اللہ بہت ہی بڑا ہے!!
(رات سے صبح تک)
وطن میں بے وطنی، پھر بھی گھر سے نسبت ہے
عجیب بات ہے کس چشمِ تر سے نسبت ہے
۔۔ ۔۔
آدمیت ابھی فٹ پاتھ پہ خوابیدہ ہے
اس کو محفل میں نہیں چارہ گروں میں ڈھونڈو
۔۔ ۔۔
تہذیب اور روایتیں قدریں کہ نظریات
ان سب سے بے نیاز بھی ہو کر جیا کرو
ایک سب سے زیادہ اور واضح موضوع جو وقار کی شاعری میں ملتا ہے اور جو شاید کسی نئے شاعر کے کلام میں اس طرح متواتر اور جلی طور پر نہیں ملتا۔ وہ ہے اردو شاعر کا کرب۔ وقار خلیل نے اردو ادیب و شاعر، اردو زبان اور فن و فن کار، تینوں ہی اہم عنوانات کے تناظر میں اس دور میں جو مسائل شاعر یا فن کار کو لاحق ہیں، ان کی بڑی کھری زبان میں تصویر کشی کی ہے۔
آج جس طرح اردو موقع پرستی، سیاسی شعبہ بازی اور سرمایہ داروں کی تفریحِ طبع کے لیے ایک کھلواڑ بن کر رہ گئی ہے۔ وہ کسی بھی حساس ادیب کے لیے قابلِ برداشت نہیں۔ چند اخبارات اور رسائل کے مالکین، چند نام نہاد اردو دوستوں اور چند مصلحت پرست غیر اردو داں اصحاب کے رحم و کرم پر جس طرح اردو ادیب بالکل مسکین اور مجبور ہو کر رہ گیا ہے، وہ دورِ حاضر کے اردو دوست کے لیے ایک لمحہ فکر ہے۔
وقار نے اس موضوع کے مختلف رنگ اپنی شاعری میں دکھائے ہیں:
اردو میں خط لکھو نہ کتابیں پڑھا کرو
جب بھی مشاعرہ ہو ٹکٹ لے لیا کرو
محنت اور محنت کا ہنر یاں عیب ٹھہرا ہے
بہت کچھ سہہ رہے ہیں ہم
بہت کچھ سہہ لیا ہم نے
قلم لکھے تو کیا لکھے۔۔ ۔ !
(قلم لکھے تو کیا لکھے)
عجب رونق شہر سخن کا عالم ہے
کہ عیب عیب بنامِ ہنر ہے کیا کہیے
بوجھو پہیلیوں پہ پہیلی کہ سر کھپاؤ
اردو کا مسئلہ ہے معمہ بنا ہوا
ہم برے ٹھہرے ہیں اے چشم خرد آج تو کیا؟
کل تک اس شہر کی تہذیب کے گلدستے تھے
تف ہے فقیہہِ شہرِ سیاست پہ اے وقارؔ
اردو کا مسئلہ جو ہے پے چیدہ دیکھنا۔۔۔!
وقار کی شاعری زندگی کے حقائق سے کچھ اس طرح منسلک ہے کہ اس میں ایک قسم کا احتجاجی لہجہ در آیا ہے، کہیں دروغِ مصلحت اندیش سے خفگی کا اظہار ہے تو کہیں تشکیلِ عہدِ نو کے لیے حال کے تلخ تجربات کا بے کم و کاست ذکر، سیاست کی شعبدہ بازی اور فکر و فریب اور اس کے ساتھ دنگا فساد فرقہ واریت یہ سارے ناگفتہ مضامین وقار کی شاعری میں کچھ اس طرح اور اتنے مناسب لب و لہجے میں ملتے ہیں کہ شاعری کے ماحول پر بار ہوتے نہیں۔
اظہارِ ذات کے تناظر میں دیکھیں تو وقار کی شاعری میں سماجیاتی مسائل کا کرب ہے۔
ان کے سارے احساسات فرد کے ہیں گویا وہ مہین سی تفریق جو فرد اور سماج کے درمیان فکر و نظر کی ہے وہ اس مہین اور نازک لکیر پر شاعری کے تار دیوار کو منطبق کرتے ہیں۔ اسی لیے ان کی شاعری کبھی تو فرد کے اظہارِ داخلی کا آئینہ دار لگتی ہے تو کبھی سماج کو درپیش وسیع تر مسائل کا کرب ہے۔
اس صورت گریِ شعری کو میں ایک طرح ’’مکان‘‘ اور ’’دریچہ‘‘ کے تناسب میں پہچاننے کی کوشش کرتا ہوں۔ جس طرح دریچہ مکان کے داخلی مناظر تک پہنچنے کا ایک وسیلہ ہے اسی طرح دریچہ ناظر کے لیے مکان کے ایک مخفف منظر کی شکل اختیار کر لیتا ہے۔ غالب کی زبان میں دیواروں کے روزن کی کیفیت بھی کبھی ایسی ہے کہ
’’ہو گئے ہیں جمع اجزائے نگاہ آفتاب‘‘
اس طرح وقار کی شاعری کا واحد متکلم یا فرد ایک دریچہ ہے جو گھر کی بصری، داخلی اور غیر مرئی کیفیات کو ایک تجسیمی علامت بنا کر پیش کرتا ہے۔ اس لیے جہاں پر ’’مکان‘‘ یا یوں سمجھیے کہ سماج کا ذکر ہوتا ہے تو وہ بھی اسی رنگ و روغن، اسی شیڈ اور کیفیت میں ملتا ہے جیسے کہ دریچہ یعنی فرد کی ایک توسیع شدہ شکل ہو۔
وقار کی شاعری اس طرح جدید اور جدید تر شعری رویہ کے درمیان اپنا مقام متعین کر لیتی ہے۔ ان کی نظموں اور غزلوں میں ’’گھر آنگن‘‘ کی شاعری کی بھی جو مثالیں ہے جن میں شاعر کے خانگی متعلقات کا ذکر ہے، وہ بھی دریچہ ہی کی شکل رکھتی ہے کیوں کہ وہ تفہیم کے عمل سے نکھر کر فرد کے عمومی احساسات کی سمت بڑھتی نظر آتی ہے اور اس طرح خانگی متعلقات احوال زمانہ بن جاتے ہیں۔
وقار کی شاعری کی بو قلمونی ان کی نظموں اور غزلوں کے موضوعات سے ملتی ہے انھوں نے مقصدیت، مواقع کی مناسبت سے شعری اظہار، ہدایت، اظہارِ حال اور نیم رومانی کیفیت ان سب کوا پنی شاعری میں برتا ہے۔ اس کے علاوہ ان کی دکنی زبان میں چند غزلیں بھی اس مجموعہ میں شریک ہیں لیکن اس طرح یہ مجموعہ دو لسانی مجموعہ بن گیا۔ میرے خیال میں دکنی زبان اب مستقل زبان ہے اس کی ترویج اور ترقی بھی کرنی ضروری ہے لیکن اردو زبان دکنی زبان دونوں کو علاحدہ اکائیوں کی طرح برتنا چاہیے۔ ان کی دکنی شاعری کی مثالیں ہیں:
نوے رستے پو جانا ہے اجی سنگات ہی رہنا
اللہ صاحب نگیباں ہوں کسو سو منتاں کیا کام
انوں غم کے باتاں تو لکھتیچ نئیں
ہمارائیچ غم ناگوارا دسے
کب لگ حالات کے گلے شکوے
جاں بھی خوشیاں ملیں خرید کرو
صداقت کے ساتھ تجرباتِ ذات کا کھرابے کم و کاست بلکہ بے رنگ و روغن اظہار وقار کا منتخب طرزِ بیان ہے اس طرح بیان سے قاری / سامع جس طرح متوجہ ہوتا ہے اسی طرح وہ چوکنا بھی ہو جاتا ہے۔ اس طرح کا لب و لہجہ ایک حد تک دکن کی اردو شاعری کے افق پر پس منظر کی طرح سے ہے۔ دکن میں صوفیانہ شاعری کے ماحول نے اکثر شاعروں کو اس جانب راغب کیا کہ وہ پند و نصائح طنز و تنقید واضح زباں میں پیش کریں، اگر ناموں کی فہرست پر غور کریں تو ولی دکنی، سراج اورنگ آبادی سے لے کر صفی اورنگ آبادی، امجد حیدرآبادی بلکہ جدید دور میں سکندر علی وجد کچھ حد تک مخدوم اور ان کے معاصر میں تھی یہ زبان کسی نہ کسی شیڈ اور رنگ میں ملتی ہے۔ وقار خلیل کا معاملہ نہ صرف اس رویہ کی تطویل ہے بلکہ ان کی خاندانی ذہنی تربیت کا بھی نتیجہ ہے وقار جس سوچ رکھ رکھاؤ سلیقہ اور نظام فکر کے نمائندے ہیں وہ تعلیمی تدریسی اور ترویجی عمل کی تبنیت اور نمو سے معنون ہے، ادارۂ ادبیاتِ اردو کا ماحول، زور مرحوم کی قد آور شخصیت کی ہم رکابی دوسرے ادبا اور شعرا سے شب و روز کا واسطہ، کتب و رسائل کا تنقیدی مطالعہ، نئے ذہنوں کی رہبری یہ سب عوامل ان کی ذات کی تار و پود میں رچے بسے ہیں۔ مثبت اقدار ان کا آفاقی مطمح نظر ہے اس لیے وہ اپنی شاعری میں خوش امیدی اور خوش نظری کی تاکید کرتے نظر آتے ہیں۔ انھوں نے بچوں کے لیے بھی بہت سی نظمیں لکھی ہیں اور کچھ نظموں میں ان کے مخاطب بچے، عہدِ نو کے نوجوان، عوام وغیرہ ہیں جو کہ ایسا لگتا ہے کہ شاعر سے پند و نصیحت، امر و نہی اور رہنمائی کے طالب ہیں۔
یہ ساری کیفیات شاعری کو مکالم اور مباحثہ بنا کر پیش کرتی ہیں، یہ شکوہ، یہ غور و فکر، یہ نالہ و نوا وقار کی نظموں دوہوں اور غزلوں سب میں مترشح ہے۔ میرے مندرجہ بالا تجزیہ کی دلیل کے طور پر کچھ مثالیں پیش ہیں:
جاگتے بھی رہو، سوچتے بھی رہو
دکن کا افق ملگجا ہو نہ پائے
کہ شیرازہ ملک و ملت نہ بکھرے
(دکن کا افق)
بہت کچھ سہ رہے ہیں ہم
بہت کچھ سہ لیا ہم نے
قلم لکھے تو کیا لکھے
(قلم لکھے تو کیا لکھے؟)
ہم برے ہی سہی پر آپ بھلے ہوں جیسے
آئینہ آئینہ چھنتے ہی چلے ہوں جیسے
اب احتجاج و عرض گزاری فضول ہے
بھوکے رہو، دعائیں دو، چائے پیا کرو
۔۔ ۔۔
ہر مصیبت پہ لوگ کہتے ہیں
صبر کر لو، خدا کو کچھ نہ کہو
وقار کی شاعری بلاشبہ اس صدی کی ہم سفر ہے۔ قافلہ زماں کی مسافرت کے ساتھ ساتھ چشمِ وا جو بھی زیر و بم، بلند و پست، دھوپ چھاؤں دیکھتی ہے اس کو بے جھجک بیان کرتی جاتی ہے۔ یہی عصری شاعری کی شناخت ہے۔
حیدرآباد کے اہم اردو شاعروں میں اپنے لہجہ کی انفرادیت، ادبی خدمات اور تازہ دم فکر کے لیے وہ جانے جاتے ہیں۔
میں وقار خلیل صاحب کو اس مجموعہ کی اشاعت پر مبارک باد پیش کرتا ہوں میں ان سے خواہش کرتا ہوں کہ ان کی شاعری کی ہر جہت کو ایک جدا باب بنا کر ایک کلیات ترتیب دیں کہ ہر وضع اظہار کو الگ طور پر پڑھا جا سکے۔
آخر میں ان کی غزلوں سے منتخب چند اشعار پیش ہیں:
شامِ مے کدہ جیسے تیرے دستِ نازک میں
تشنگی نے دیکھے ہیں جامِ زر فشاں خالی
ہاتھ پھیلاتے ہوئے صبح کے دروازے پر
آج ہم صورتِ دریوزہ گراں ہے کچھ لوگ
وہی یخ بستہ پر اسرار خموشی، وہی غم
اپنے بارے میں سبھی سوچ رہے ہوں جیسے
پھر وہی رات دبے پاؤں چلی آئی ہے
کل کسی نے یہ کہا تھا کہ سویرا دیکھا
سلگ چلی کسی لہجے کی بوند بوند کرن
شبوں میں چاند ستارے اجالتے کیوں ہو
برگشتہ موسموں کا کہیں تذکرہ نہ ہو
یہ حکم ہے کہ تازہ ہوا کو خطا لکھیں
اور ایسے ہی کئی اشعار، کئی خوب صورت مصرعے اور نظموں کے حصے اس مجموعہ میں مل جائیں گے۔
٭٭٭
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...