(Last Updated On: )
وہ اب کے آئے تو سچ ان کے ساتھ تھا لیکن
عجیب طرح کا بے درد سچ تھا
کہتے تھے ’’تمھارا جھوٹ ہے ننگا یہی تو اک سچ ہے‘‘
ہم ان سے کہہ نہ سکے
ہمارے اذن پہ جو قصر و بام اگاتا تھا
وہ جن ہمیں میں تھا، وہ مر چکا ہے، ہم لیکن
جئیں تو کیسے جئیں
اور مریں تو کیسے مریں
کہ تن برہنہ پڑے ہیں
نہ جانے کون سا ہے دشت، سمت ہے نہ افق
بس ایک منظرِ بے رنگ و صوت ہے اس کو
خلا کہیں کہ عدم
وہ ہم سے صدیوں پرانا چراغ چھین گئے
نئے چراغ پرانے چراغ کے بدلے۔۔ ۔
وہ کاش اب کے بھی ایسا فریب دے جاتے
عزیز قیسی ان شاعروں میں سے ہیں جو کچھ واضح طور پر ترسیل کے قائل ہیں۔ لیکن ان کی نظموں میں استعاراتی بیان کا ارتکاز اوروں سے زیادہ ہے۔ علامتی کردار کی تشکیل کر کے اس کے اطراف اپنے ذاتی جذبات کا حصار بنانا اور پھر اپنی شرمندۂ معنی نہ ہونے والی تمناؤں کے جذباتی واسطے میں ایک ایک پرتو وا کرنا ان کا شعری رویہ ہے۔ پیشِ نظر نظم عنوان کے تحت ہے۔ اس نظم کا پہلا مصرعہ ایک مستقل حرکت کا اعلان کرتا ہے اگر ’’وہ آئے‘‘ ہوتا تو واضح طور پرنئے لوگوں کی طرف صاف اشارہ ہوتا۔ لیکن ’’وہ اب کے آئے‘‘ کا جملہ ان کی یعنی نئے لوگوں کے مسلسل توارد کا اظہار ہے یعنی نئے لوگ تو ہمیشہ ہی آتے ہیں لیکن اس بار جب آئے تو ان کے پاس ایک بے درد سا سچ تھا ’’سچ‘‘ یہاں پر اضافی انکشاف ہے یعنی ان نئے لوگوں کے پاس یہ انکشاف تھا کہ ان سے پہلے موجود نسل کے پاس جو سچ تھا یعنی جو زندگی کا حل تھا، وہ ایک ننگا جھوٹ تھا۔
اس نظم کا ماحول آزادیِ ہند کے اطراف کا ماحول معلوم ہوتا ہے۔ میں یہاں پر ’’نئی نسل‘‘ کے ساتھ موجودہ کی اضافت استعمال کروں گا کہ بات واضح ہو۔ موجودہ نئی نسل جب آئی تو اس نے اپنی پیش رو نسل کے نظریات کو بے معنی اور باطل پایا۔ یہ نظریات غالباً اس مفروضے پر محلات اگاتے تھے کہ مستقبل (جو کہ اب حال بن چکا ہے) چوری ڈکیتی، انسانی فسادات، بدحالی، بھکمری اور طبقاتی کشاکش سے پاک ہو گا۔ آزادی کے ساتھ یہ مفروضہ چھناکے کے ساتھ ٹوٹ گیا۔
اس نظم میں ’’ہم‘‘ ماقبل کی نسل ہے، جسے سہولت کے لیے میں پرانی نسل کہوں گا۔ پرانی نسل نے بہت افسوس کے ساتھ نئی نسل کے اس فیصلے کو سنا اور انھیں اس بات سے صدمہ پہنچا کہ ان کے اندر اس خوش رنگ مفروضے کو زندہ رکھنے کے لیے جو اعتبار تھا وہ بھی مر چکا ہے۔ جذبے کے لیے قیسی نے ’’جن‘‘ کی مثال لی ہے کیوں کہ جذبے کی گرمی جن کے ناری اور بے انتہا طاقت کے حاوی ہونے کے مترادف ہے۔ اب شاعر کہتا ہے کہ واقعی وہ ’’جذبہ‘‘ وہ ’’جن‘‘ مر چکا ہے۔ حالاں کہ ہم ابھی تک موجود ہیں اور ہمیں نہ موت ہی راس آتی ہے نہ زندگی۔ موت تو فرار کی شکل ہے لیکن زیست پر اعتبار اٹھ جانے کا سبب مقصدِ حیات کی شکست اور زندگی کی بے لذتی اور بے معنویت ہے۔ اس زیست کو شاعر نے خلا اور عدم کا نام دیا ہے، خلا اس لیے کہ حیات کی تنبیت کے امکانات نہیں عدم اس لیے کہ زندگی میں زندگی پن نہیں۔
اختتامی بند میں شاعر ایک سبب کا اظہار کرتا ہے چراغ استعارہ ہے نظریے کا۔ شاعر محسوس کرتا ہے کہ نئی نسل پرانے نظریات کے بدلے کوئی نیا نظریہ نہیں پیش کر سکی ہے اور وہ نظریاتی فریب تک دینے میں ناکام رہی ہے۔ دیکھیے نظم کتنی خوب صورتی سے ختم ہوتی ہے۔
وہ ہم سے صدیوں پرانے چراغ چھین گئے
نئے چراغ پرانے چراغ کے بدلے
وہ کاش اب کے بھی ایسا فریب دے جاتے
یہ نظم جذباتی کشاکش کی ایک کامیاب ترسیل ہے۔
٭٭٭