(Last Updated On: )
البتہ +لیکن
آپ، تم جس کے ثنا خواں ہو، وہ
البتہ و لیکن کے سوا کچھ بھی نہیں
آپ، دو چہروں کی ناگن کے سوا کچھ بھی نہیں
ایک البتہ مرے ساتھ سحر گاہ
تمناؤں کے بستر سے اٹھا
(ہر سحر گاہ یوں ہی اٹھتا ہے)
دن کو ایک پیرِ جہاں گرد کی مانند لڑھکتا رہا
لنگڑاتا رہا
شام ہوتے ہی وہ لیکن کی سیہ لاش کے ساتھ
موج آشفتہ، کنارے پہ جسے ڈال گئی
پھر میرے ساتھ ہی بستر سے ہم آغوش ہوا
آپ، البتہ و لیکن کے سوا کچھ بھی نہیں
جشنِ آدم پہ خدا نے جو ملے عطر و گلاب
سرمہ و غازہ و گلگوں نہ ملا
اب وہی چہلم انساں پہ لگا کر نکلے
آپ، البتہ و لیکن کے سوا کچھ بھی نہیں
کبھی وہ چہرہ، وہ البتہ، جسے جانتے ہیں
میں تگ و تاز میں بھی شور کے ہنگام میں بھی
نوحہ گر ہوتا ہے لیکن یہ کہ اب زندہ نہیں
کبھی وہ چہرہ، وہ لیکن، جسے تم جانتے ہو
اپنے سنسان میں، تنہائی میں
آپ ہی ہنستا ہے البتہ کی حالت پہ کہ اب زندہ نہیں
کیا ہوا آپ کے اک چہرے کی خاکستر سے
گر نیا چہرہ جھلک اٹھتا ہے
آپ، البتہ و لیکن کے سوا کچھ بھی نہیں
ایسا البتہ و لیکن جو تگ و تاز کے، یا شور کے
ہنگام کے
اس بارِ گراں کے نیچے
جیسے دب جاتا ہے پھر اس کی خبر تک گویا
کبھی آتی نہیں، آتی نہیں، آتی ہی نہیں۔۔ ۔
٭٭٭
پردہ فاش:
رودِ نیل میں چراغِ عجم کی روشنی گھل گھل کر بہہ رہی تھی۔ رودِ نیل علامت ہے موئے قلم کی اور چراغِ عجم فکر و خیال کے ایک مبدا کی۔
ن۔ م۔ راشد (اردو کا عظیم نظم گو) پردۂ غیب میں پوشیدہ ہو گیا چراغِ عجم خاموش ہے۔
میں نے راشد کی نظموں سے دماغ کو سمجھنا سیکھا، ان نظموں کے آنگن میں کھیلتا رہا پھر ان نظموں کے اثرات سے بچنے کی کوشش کی کہ کہیں میری انفرادیت نہ متاثر ہو۔
تراشیدہ الفاظ میں، انوکھے لہجے میں ہماری ذات میں سرایت کرتے ہوئے اسرار کو کھولنے والی شاعری اپنے خالق کی سانسوں سے جدا ہو کر ہمارے دل و دماغ میں خوش بوئے آوارہ کی طرح رقصاں ہے۔ یہ شاعری ایک پردۂ فاش ہے۔
میر کی شاعری غمِ ذات اور خلوصِ فکر کی شاعری ہے۔ غالب کی شاعری گنجینۂ معانی، شکستِ ذات کے انبساط کی شاعری ہے۔ اقبال اصلاح دیدہ و دل اور عشقِ حقیقی کے شاعر ہیں لیکن ان سب سے الگ راشد کی شاعری ہے جو غمِ ذات، شکستِ ذات، اصلاحِ جمالیات اور ایسی ہی ان گنت صفات کا ایک مرکز ہے۔ بہر حال میں دعویٰ اور دلیل کو یہیں پر چھوڑ کر آپ کو نظم کی طرف لے آتا ہوں۔
اس نظم میں:
راشد کی اس مختصر نظم میں کئی اہم علامات ہیں۔ آپ اپنی ہستی اپنا وجود –
البتہ و لیکن: اس علامت میں البتہ اس امید سے معنون ہے جو حوصلہ افزا ہو
جو امکان دکھائے کہ شاید کچھ ہو سکے اور لیکن اس کانٹے کی علامت جو مایوس کر دے جو خواب کو توڑ ڈالتا ہے، جو ہمت شکن ہے ہستی اسی امید و شکست کے درمیان قید ہے۔
دو چہرے : انسان کی شخصیت کے دو رخ، مثالی اور حقیقی۔
سحر گاہ : خوش امیدی کا ہنگام
بستر : راحت
دن : کار زارِ حیات
موجِ آشفتہ: ابتدائے جستجو کے لمحے
خدا : بہ معنی خدا یا ہمت
عکسِ نقش:
راشد کی نظموں میں مخاطب بہ ذاتِ خود شاعر ہوتا ہے، شاعر اس نظم میں اپنے آپ سے مخاطب ہے وہ کہتا ہے:
اس ’’آپ‘‘ اس ہستی جس کے وجود پر تم نازاں ہو، جس کی تعریف کرتے رہے ہو وہ امیدِ بیم کا تشخص ہے۔ اس کا سارا بھرم اس کی رجائیت اور شکست خوردی کا اعلان ہے۔ یہ ہستی دو مختلف رخ رکھتی ہے اور ان دونوں رخوں کے انجذاب سے زندہ ہے۔
شاعر ایک واقعہ کی طرف جو غالباً اس کی زندگی ہے اشارا کرتا ہے کہ ایک ایسے ہی خوش امیدی کے ہنگام میں تمناؤں سے پُر ایک ’’البتہ‘‘ اپنی منزل کی جستجو کے لیے اٹھا (شاعر یہیں پر یہ بھی کہتا جاتا ہے کہ ہر ’’ایک‘‘ سحر گاہ یوں ہی اٹھتا ہے) اور پھر وہ ’’البتہ‘‘ یعنی وہ جذبے سے سرشار آرزو، کارزارِ ہستی میں ایک جہاں گرد بوڑھے کی طرح رواں دواں، لڑھکتا لنگڑاتا، تکلیف و مصائب کو جھیلتا رہ روی کرتا رہا لیکن شام (یعنی انجام کار یعنی آخری لمحہ سفر) میں اسے کچھ نہ ملا سوائے لیکن کی سیہ لاش کے جسے وقت نے اس کے سامنے ڈال دیا تھا۔
سمجھنے کی کوشش کیجیے تو یہ ’’لیکن کی سیہ لاش‘‘ شکست خوردگی کی مردنی کے سوا کچھ بھی نہیں، تو یہی مایوسی اس کو سفر کے انجام کے طور پر ملی اور اس مایوسی کے ساتھ وہ جذبہ شاعر کے ساتھ موت سے یا ماندگی سے ہم کنار ہوا۔
پھر شاعر یاد دلاتا ہے کہ یہ ہستی سوائے بیم و رجا کے کچھ بھی نہیں۔
شاعر نظم کو آگے بڑھاتے ہوئے پھر خود سے مخاطب ہو کر کہتا ہے کہ ہاں اب بھی وہ مرحوم ’’البتہ‘‘ (وہ امید جو شکست خوردہ ہو چکی ہے) اس جستجو اور شور شرابے میں جاگ اٹھتا ہے اور نوحہ گر ہوتا ہے، دل میں ایک کسک اٹھتی ہے کہ ہائے وہ امید مر چکی ہے اپنے اس خوش امید جذبے کا غم ستاتا ہے اور وہ ’’لیکن‘‘ جو کہ مایوس ہے البتہ امید کی اس حالت پر نہال ہو رہا ہے۔
شاعر یوں ہی غم کی سرشاری میں تجاہلِ عارفانہ سے پوچھتا ہے کہ کیا ہوا اگر ایک رخ کی شکست خوردگی سے دوسرے رخ کو رونق بخشتی ہو۔ پھر یادکرتا ہے کہ ہستی سوائے امید و بیم کے کچھ بھی نہیں یہاں تک کہ ہستی اس شور شرابے میں ایسے گم ہو جائے کہ پھر اس کی دریافت اور بازیافت نا ممکن ہو جائے۔
ن۔ م۔ راشد کی یہ نظم ان کے بیش بہا کلام کی ایک اہم بوند ہے۔
(ماہ نامہ ’’سب رس‘‘ نومبر ۱۹۷۵ء)
٭٭٭