(Last Updated On: )
۱۹۶۸ء کے اطراف بشر نواز کا ایک مضمون ’’عملی تنقید‘‘ شائع ہوا تھا۔ اس مضمون میں جس نظم کی توجیح نے مجھے بہت متاثر کیا تھا۔ وہ وائرس تھی۔ آپ بھی سنیے۔
مسیحِ وقت تم بتاؤ کیا ہوا؟
زباں پہ یہ کسیلاپن کہاں سے آ گیا؟
ذرا سی دیر کے لیے پلک جھپک گئی
تو راکھ کس طرح جھڑی۔۔ ۔
نظم کا یہ حصہ بہت ڈرامائی ہے۔ ’’مسیحِ وقت‘‘ غالباً شاعر کا اپنے سے مخاطب ہے۔ نوجوان جذباتی ہوتا ہے۔ امنگیں اتھاہ ہوتی ہیں۔ دشواری اس کے سامنے ایک تنکا ہوتی ہے لیکن جب اس کے ہاتھ میں تلوار دے دی جاتی ہے، جب اس محال مرحلہ سے دو بہ دو ہوتا ہے تو اس کی پیغمبری ختم ہو جاتی ہے۔ ایسے لمحات میں شاعری اپنی کمزور کمان کی طرف دیکھتا ہے۔ آئینے کے سامنے کھڑا ہو کر کہنے لگتا ہے کہ:
’’مسیحِ وقت تم بتاؤ کیا ہوا؟‘‘
پلک کا جھپکنا اور راکھ کا جھڑنا، دونوں علامات میں بڑی مماثلت ہے۔ اس پر یکایک جلتی ہوئی اگر بتی یاد آ جاتی ہے جس سے راکھ آہستہ آہستہ جھڑتی ہے۔
یہ نظم غالباً بیکاری کی بہترین آئینہ دار ہے، کردار بہت پڑھا لکھا ہے، با وضع ہے، اچھے ماحول سے تعلق رکھتا ہے۔ اس کے باوجود بے کار ہے۔
مسیحِ وقت تم بتاؤ کیا ہوا؟
دیو علم کے چراغ کا
کیوں بھلا بپھر گیا؟
دھواں دھواں بکھر گیا
سنو کہ وقت چیختا ہے: ’’کام۔ کام۔ کوئی کام۔‘‘
نئے دور کا سب سے بڑا المیہ بے روزگاری، نوجوان تازہ دم ذہین کام، کے لیے کاسۂ گدائی لیے ہیں۔ ان کے اعصاب چیختے ہیں۔ ’’کام۔ کام۔ کوئی کام۔‘
یہ نظم قاضی سلیم کی ہے۔ قاضی سلیم ایک دانشور ہیں اس لیے کہ وہ انسانی المیوں کو متعصب نگاہ سے نہیں دیکھتے، بلکہ اسے ایک ازلی درد بنا دیتے ہیں۔ وہ شکوہ نہیں کرتے بلکہ مسائل کو ان کی تمام تر گہرائیوں کے ساتھ پیش کرتے ہیں۔
قاضی سلیم کا شعور ایک گھنیرا درخت ہے جس میں مختلف مناظر سلیقے سے سجے ہوئے ہیں اس کی فضا کائنات کی بسیط اور بنفشئی روشنی میں اپنا جادو جگاتی ہے۔ شاعر کے کلام میں سانسوں اور خون کی آمیزش سے ایک ایسا فکری منظر نامہ وجود میں آتا ہے جس میں معانی شکست و ریخت سے دوچار ہیں۔
ان کی نظموں کی پہچان ایک مخصوص لہجہ ہے۔ وہ ایک خواب ناک انداز میں اپنے آپ سے کچھ اس طرح خطاب کرتے ہیں۔ جیسے سجھاوا دے رہے ہوں۔
چلو یوں ہی سہی
تم سب دریچے بند کرو
وہ ہوائیں روک دو
جو خلا سینے کا بھرنے کے لیے آتی ہیں
اور سانسیں تمھاری ساتھ لاتی ہیں
…… (چلو یوں ہی سہی)
آواز میں مفاہمت انگیز رغبت اور ہم آہنگ میں کم تحرکی اس پورے حصے کو ڈرامائی اور مکالماتی بنا دیتی ہے۔ قاضی سلیم جو کچھ کہتے ہیں اسے ’’کم سے کم‘‘ اور منتخب انداز میں کہتے ہیں اور ان کی شاعری میں فنِ لطیف کی ترکیب کی صداقت نظر آتی ہے۔ ممکن ہو کہ اس بات کی تہہ میں ان کی خود تنقید شخصیت کا جذبہ ہو جو انھیں نظموں کا نک سک درست کرنے میں محرک کی حیثیت رکھتا ہو۔
ان کی شاعری میں دو کردار نظر آتے ہیں پہلا فرد اور دوسرا کائنات۔ وہ فرد جو ان کی نظموں کا ’’میں‘‘ ہے۔ یہ ’’میں‘‘ مسلسل جہاد میں ہے۔ جو پِستی ہوئی زندگی کے درد پر احتجاج کرتا ہے۔ یہ احتجاج کوئی شکوہ بھی نہیں۔ کوئی نالہ بھی نہیں۔ یہ احتجاج صرف اظہار ہے اس کرب کا جو اس کی روح پر زخمہ زن ہے۔ یہ احتجاج کسی کو موردِ الزام نہیں کرتا۔ قاضی سلیم کا ’’میں‘‘ بہت با سلیقہ ہے۔ وہ اس طرح سے مطالعہ کرتا ہے کہ ہر درد گہرا ہو جاتا ہے۔ اور ان کے لہجے کا طنز کھل کر سامنے آ جاتا ہے۔ طنز کی اچھی مثال نظم ’’وائرس‘‘ میں ملتی ہے۔ اس کے علاوہ:
کہو جو کچھ بھی ہے
جیسا بھی ہے
وہ آج زندہ ہے
کہو، کچھ تو کہو! وہ جھوٹ ہی پھر آج دہراؤ
…… (کچھ تو کہو)
گویا ’’میں‘‘ ایک با شعور مزاج دان دانشور ہے جس کے ماتھے پر اک کرن کی انی ٹوٹ گئی ہے۔ کائنات غموں کی زنجیرِ مسلسل ہے جس میں شکلیں بنتی ہیں ٹوٹتی ہیں پھر بنتی ہیں اور پھر ٹوٹتی ہیں کائنات ایک کشاکش کی ارژنگ ہے جس میں حرکت اور مصروفیت کے سلسلے بنتے ہیں اور بکھرتے رہتے ہیں۔
قاضی سلیم کی شاعری نے دو کروٹیں بدلی ہیں۔ پہلی کروٹ وہ کہ جب شاعر کا احساس نازک ہوتا ہے۔ وہ چھوٹے چھوٹے سے المیے کو برداشت نہیں کر سکتا اور چیخ اٹھتا ہے۔ اور دوسری کروٹ وہ کہ شاعر جب نشاطِ کرب سے معرفت کا مزہ لیتا ہے۔ وہ گھبراتا نہیں بلکہ ایک بلند مقام سے ہر بات کو محسوس کرتا ہے۔ پیکر بناتا ہے، سمجھتا ہے، منظر کا لطف لیتا ہے اور اسی میں نجات کی تلاش کرتا ہے۔ وہ ایسی ہی عارفانہ کیفیت میں کہتا ہے:
عمر اک چیخ کی میعاد ہے
تم بھی چیخو
اتنی شدت سے۔۔ ۔ کہ اک مدت تک
وقت کو یاد رہے!!
ان نظموں کا ماحول کائنات ہے لیکن کائنات ایک کھلا ہوا گرم صحرا ہے جو آباد بھی ہے۔ شاعر اس میں چپکے چپکے سفر کرتا ہے۔ وقت اپنی لرزتی، دھمکتی اور گرجتی آواز کے ساتھ گزرتا ہے، جزیرے (آرزوؤں کے) ابھرتے ہیں۔ ڈوب جاتے ہیں۔ ان نظموں میں ’’وقت‘‘ ایک اہم عنصر ہے۔ یہ جیسے جیسے بدلتا رہتا ہے، ویسے ویسے کھنڈر ٹوٹ گرتے رہتے ہیں۔ نئے چہرے ابھرتے ہیں، کچی آوازیں تھر تھرا اُٹھتی ہیں۔ قاضی سلیم اس پورے نظام کو اپنی نیم خوابیدہ نگاہوں سے دیکھتے ہیں۔ پھر یکایک چونک کر کہتے ہیں:
نیند سے نکلو
چلو بیچ جواں خوابوں کے
بانجھ یادوں میں کہیں دفنا دیں
کوئی اگتا ہے نہ پھلتا ہے یہاں
صرف سائے ہیں
گھنے جنگل ہیں۔۔ ۔
…… (چلو یوں ہی سہی)
قاضی سلیم ہر واقعے کو اس کی ظاہری شکل سے ہٹا کر کائناتی حقائق کی طرف لے جاتے ہیں۔ اس طرح جو احساس وقتی ہوتا ہے عصری اور ازلی ہو جاتا ہے اور وہ اس طرح علامات کو وجودی علامات میں تبدیل کر دیتے ہیں جو وسیع اور عمیق ہو جاتی ہیں اور ان میں کئی رنگتیں (Shades) پوشیدہ ہو جاتی ہیں۔ ان کی انا جو نوک کی طرح چبھتی ہے، آہستہ آہستہ نرم و نازک ہو جاتی ہے۔ ان کی نظر کی گہرائی واقعات کا مطالعہ کرتی ہے اور ان کو اپنے شعور کے نہاں خانے میں ترتیب دیتی ہے۔
اور کبھی کبھی نرم و نازک حادثات کسی لمسیاتی تجربے میں ضم ہو کر، شاعر کی لفظیات کا ایک انوکھا تاثر بھی دیتے ہیں۔ مثلاً:
نرم ریشم کی طرح بنی خامشی
جا بہ جا پھر مسکنے لگی
جسم کے آشیانوں سے طائر اڑے
گرم تازہ لہو میں نہا کر
پروں کو جھٹکنے لگے
دیر تک رنگ اڑتا رہا
شعور اور نظر میں جو تفاوت ہے، وہ اس وقت اور بھی زیادہ اہم ہو جاتا ہے جب ہم قاضی سلیم کی نظمیں پڑھتے ہوں۔ یہاں پر سمجھ میں ہی نہیں آتا کہ شاعر اس تفاوت کو کس طرح برت رہا ہے، اس کے پاس جتنا بالغ شعور ہے اس کی نظر اتنی ہی گہری ہے۔ پہلے ہی دور کی طرف دیکھیے:
دھرتی تیرا مجھ سا روپ
چاہے چھاؤں ہو، چاہے دھوپ
باہر ٹھنڈک، اندر آگ
دل میں درد، زبان پر راگ
پہلے دور کی شاعری کی بات کرتے ہوئے یہ بات نوٹ کرنے کے قابل ہے کہ قاضی نے اس زمانے میں جو کرب محسوس کیا تھا وہ ان کے چوبِ تصور کے اندر دیمک کی طرح لگ گیا تھا جو انھیں اس کا احساس دلاتا رہا تھا کہ:
تُو، تو ایسے سمے
مری رگوں میں خون کے بدلے
۔۔ ۔ وہ پانی ہے
جو ارماں سادھ لینے والے پیڑوں کا مقدر ہے
’’ارماں سادھ لینے والے پیڑ‘‘ کون ہیں؟ وہی نظامِ تفاوت جس میں انسانی حقوق سب کے لیے نہیں چند لوگوں کے لیے ہوتے ہیں۔ شاعر اچھی طرح جانتا ہے کہ ماحول اس کے لیے موافق نہیں تو پھر۔۔ ۔۔
چلوں یوں ہی سہی
تم جو بھی چاہو
جس طرح چاہو، وہی ہو گا
میں اک گرداب کی مانند واپس لوٹتا ہوں
اس سمندر میں
کہ جس کی تہہ میں جا کر
سب خزانے ڈوب جاتے ہیں
اس احساس کو قاضی سلیم نے ’’کوئی کچھ نہیں‘‘ میں بھی پیش کیا ہے؟
لیکن ایسا لگتا ہے کہ شاعر کے جذبات میں انجامِ کار نشاطِ غم اور لذتِ کرب کی کیفیات نے جگہ کر لی۔ وہ ان سب سے علاحدہ ہو کر ہستی کے نروان میں محو ہو جاتا ہے۔ اب وہ سب کچھ محسوس کرتا ہے، سارے درد ناک مناظر کا ناظر ہے۔ لیکن شکوہ نہیں کرتا بلکہ شعور سے ہر درد کو سمجھنے اور جذب کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ یہ شعور ان کی نظموں کی جان ہے:
خلا دل کا ذرا سی دیر بھی خالی نہیں رہتا
اسے جو بھی میسر ہو وہ بھر لیتا ہے سینے میں
تمنا پھر تمنا ہے
وہ چاہے موت ہی کی ہو
وہی دکھتی رگوں میں خون کے طوفان، تھپیڑے
پھر وہی شیشوں پہ بڑھتے، پھیلتے جالے
یہ سارے نوکیلے نیزے شاعر کے بدن میں دھنسائے جاتے ہیں۔ وہ لمحہ جو شاعر اپنے ذہن پر محسوس کرتا ہے اور شاید ٹوٹتی ہوئی شکلوں میں اپنے بہت سارے سرمائے کی تباہی کو دیکھنے کا لمحہ ہے۔ اس لمحہ میں موجود زندگی ایک غیر متناسب رزم گاہ ہے۔ جس میں چیخیں ابھرتی اور ڈوبتی ہیں۔ اس کشاکش میں شاعر:
میں اپنے سامنے خود کو تڑپتا سر پٹکتا دیکھ سکتا ہوں
اور ایسا مطمئن ہوں آج جیسے یہ جنم مجھ کو
ابھی کچھ دیر پہلے ہی ملا ہے
۔۔ ۔ اور کسی انجانی دنیا سے
برستے بادلوں کے ساتھ آیا ہوں
اب ایسا محسوس ہونے لگتا ہے کہ قاضی سلیم کا یہ شعر ’’اذیت کوش‘‘ ہو گیا ہے۔ وہ اپنے آپ کو ہر پُر درد ماحول میں محسوس کرتا ہے اور اس واقعے کو مزہ لے لے کر بیان کرتا ہے۔ قاضی سلیم اپنی نظموں میں مادی اور حقیقی تجربوں کو اس طرح پیش کرتے ہیں کہ وہ دور تک معنی خیز ہو جاتے ہیں اور ہر تجربہ ان کی دروں بینی کا ایک نمونہ ہوتا ہے۔ مثلاً ان کی نظم ’’کھلونے‘‘ کا نظام۔
ایسی عارفانہ کیفیات میں شاعر کے پاس دو ہی خاص عمل باقی رہتے ہیں۔ پہلا ذات کی افہام و تفہیم کا۔ دوسرا عمل خالقِ ذات کی تلاش کا۔ وہ بنی ہوئی سرحدوں کو توڑ دینا چاہتا ہے اور اپنے ہم زاد سے کہتا ہے:
دیکھیں کیا ہے
آؤ، پسِ دیوار چلیں
گہرے، نیلے گنبد کے اس پار چلیں
ان کی شاعری کے آہنگ سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ وہ تحریک اور جنبش کے عاشق ہیں۔ وہ ارتعاش کو چاہے وہ ہیجان انگیز ہی کیوں نہ ہو منتخب کرتے ہیں۔
کھڑکیوں سے پرے
جھاگ ہی جھاگ ہیں
بے تمنا دلوں کے سبک خواب
۔۔ ۔ مد ہوش آنکھوں کے ہر ہر پپوٹے سے
جاری ہوئے (ٹھیک تین بجے، رات تین بجے)
قاضی سلیم کو میں ایک خالص شاعر کہوں گا، وہ اپنے افکار میں وہی شاعرانہ وارفتگی رکھتے ہیں جو کہ ان کے درون کی ترسیل میں ممد و معاون ہو۔
نجات سے پہلے ان تمام خوبیوں سے آراستہ ہے جو ایک اچھی شاعری کی کتاب میں ہونی چاہیے۔ قاضی سلیم نے اپنے کلام کا بہت سخت انتخاب کیا ہے۔ یہ کتاب اردو کی اہم کتابوں میں گنی جائے گی۔
٭٭٭
[ماہ نامہ ’’یپکر‘‘ میں شائع شدہ مضمون اور ماہ نامہ ’’آندھرا پردیش میں شائع شدہ تبصرے کے ادغام سے۔]
٭٭٭