(Last Updated On: )
غالب کو دشوار پسند، معنی آفریں اور ندرت نگار سمجھ کر پڑھا جاتا ہے۔ ان کے ایک ایک شعر کے کئی معانی اور ایک ایک نکتے کے کئی رخ ڈھونڈے جاتے ہیں۔ اس میں کلام نہیں کہ غالبؔ کی شاعری کے یہ ابعاد اہم ہیں۔ لیکن جہاں تک میں سمجھتا ہوں صرف یہی ابعاد ان کے کلام کی شناخت نہیں ہیں۔ یہی سبب کہ متذکرہ بالا نظریات کے تحت غالبؔ کی شاعری کے سمندر میں غوطے لگا کر کسی ایک شعر کی تفسیر تلاش کی جاتی ہے۔ پھر اس تفسیر کو لغات، مذہبی فلسفے، صوفیانہ عقائد، سائنسی جمالیات کے تحت منشرح کیا جاتا ہے۔ لیکن سیری نہیں ہوتی۔ ہر محقق پرانی تفسیر کی تنسیخ کرتا جاتا ہے۔ غالبؔ نے غیرشعوری طور پر اپنے شارحین کو گرہیں فراہم کر دی ہیں۔ طرزِ بیدلؔ میں ریختہ کہنا مشکل گوئی کا اعتراف، نوائے سروش کی بازگشت اور ایسے ہی اشارے غالبؔ کے کلام کو Mystify کرتے ہیں۔ اگر غور سے دیکھا جائے تو بیدلؔ نے ایک بڑے قبیلۂ شعرا کو متاثر کیا تھا۔ طرزِ بیدلؔ میں ریختہ گوئی غالبؔ کے عہد میں کوئی نئی بات نہیں تھی۔ بہت سے شاعر ادق اور مشکل مضامین کے معاملے میں تیز رو تھے۔ مثلاً سوداؔ، ناسخ، آتشؔ وغیرہ۔ معنی آفرینی میں دردؔ، ذوقؔ ، مومنؔ اور عیشؔ بھی کچھ کم نہیں تھے۔ ندرت تو ایک اضافی جملہ ہے اس طرح غالبؔ کی شاعری کو ان بنیادوں پر اپنے ہم عصروں کی شاعری پر کوئی فوقیت حاصل نہیں۔
اگر غالبؔ کی شاعری کا ان کے ہم عصروں کی شاعری سے تقابل کیا جائے تو مضامین میں ندرت، مشکل پسندی اور معنی آفرینی کی بجائے لہجے کا فرق خاص طور سے محسوس ہوتا ہے۔ وہی مضامین ہیں، وہی تخیل کی اڑان ہے۔ لیکن غالبؔ کا اظہار ایک نئی اور اجنبی ادا سے مرتکز ہو کر سب سے جداگانہ روِش پر ایستادہ ہے۔ محمد حسین آزاد کی جانب داری منظور لیکن ’’آبِ حیات‘‘ میں انھوں نے غالبؔ کو غالبؔ کی طرح پیش کیا ہے۔ ہم غالبؔ کو ان کے غیر متوقع لہجے کے سبب ان کے ہم عصروں سے جداگانہ پاتے ہیں۔ دیکھیے:
حسن مہ گرچہ بہ ہنگامِ کمال اچھا ہے
اس سے مرا مہ خورشید جمال اچھا ہے
کونسی نئی بات ہے؟ وہی پرانی تشبیہیں اور وہی حسن کی تعریف۔ لیکن ذرا بہ ہنگامِ کمال اور یہ خورشیدِ جمال کی تراکیب کو دیکھیے۔ یہ ارتکاز کے لیے تراشی گئی ہیں ورنہ کوئی دوسرا شاعر ہوتا تو ایسی تیکھی ترکیب تک شاید ہی پہنچ پاتا۔
اسی طرح:
جب کہ تجھ بن نہیں کوئی موجود
پھر یہ ہنگامہ اے خدا کیا ہے؟
یہ پری چہرہ لوگ کیسے ہیں
غمزہ و عشوہ و ادا کیا ہے؟
شکنِ زلفِ عنبریں کیوں ہے
نگہِ چشمِ سرمہ سا کیا ہے؟
سبزہ و گل کہاں سے آئے ہیں
ابر کیا چیز ہے ہوا کیا ہے؟
ہم کو ان سے وفا کی ہے امید
جو نہیں جانتے وفا کیا ہے
غالبؔ کے ان اشعار کا موضوع اور مواد کسی طرح نادر اور نیا نہیں کہا جا سکتا۔ لیکن پھر یہ ہنگامہ اے خدا کیا ہے؟، نگہِ چشمِ سرمہ سا کیا ہے؟، ابر کیا چیز ہے ہوا کیا ہے؟ نہ صرف یہ کہ غالبؔ کے شعر میں فکری استعجاب کا عمق پیدا کرتے ہیں بلکہ ایسے Images بناتے ہیں جو سادہ دلی کی مختلف صورتوں میں عکاسی کرتے ہیں اور یہ سادگی بھی عیارانہ ہے۔ ایسی عیاری جو مخاطب کو چونکا دے۔ اس مفروضے کو (جو کہ شاید ایک حقیقت بھی ہو) کچھ اس انداز سے پیش کرے کہ اس کی صداقت میں اس مفروضے کے مرکز یعنی منبع کو بھی اشتباہ پیدا ہو اور پھر کلام بھی خدا سے! آپ اس طرح کی شاعری میں صاف طور پر ڈرامائی صورتِ حال پائیں گے۔ سوچیے کہ غالبؔ خدا سے مخاطب ہو کر شکوہ کر رہا ہے۔ لیکن شکوہ بھی اس علم کے ساتھ کہ تماشائی (Audience) اس شکوہ سے متاثر ہو رہے ہیں۔ ایک قسم کی کردار نگاری ہے۔ غالبؔ کا یہ رویّہ اور یہ انداز اردو شاعری میں یکتا ہے۔
غالبؔ کا لہجہ ایک ایسے شکست خوردہ بہادر کا لہجہ ہے جو مستقبل سے نا امید تو نہیں لیکن حال کی اس گھناؤنی سیاست سے مایوس ہے جس نے اسے مکارانہ طور پر شکست دی ہے۔ غالبؔ کی شاعری کا ایک عنصر ایسا منفی بھی ہے جو اس مثبت کا نغمہ گر ہے جو پوشیدہ ہے۔ جب وہ کہتے ہیں کہ:
غالبِؔ خستہ کے بغیر کون سے کام بند ہیں
روئیے زار زار کیا کیجیے ہائے ہائے کیوں
تو اس میں غالبؔ اپنے غیر اہم ہونے کا اعتراف نہیں کرتے۔ یہ تو ایسا پردہ ہے جو رہ رہ کر دکھاتا ہے کہ چلمن کے پیچھے کوئی موجود ہے۔ یہی پردہ کہتا ہے کہ غالبؔ کوئی معمولی شخص نہیں بلکہ بہت اہم ہے اور اس کا غیاب قابلِ افسوس ہے!
تماشا تو یہی ہے کہ غالبؔ جو نہیں کہتا وہی کہتا ہے۔ اس کے یہاں اتفاق انحراف کا اظہار ہے۔ الفاظ بہ ذاتِ خود سادہ ہوتے ہیں اور ان کے وہی معنی نہیں ہوتے جو ہم (چند اسباب کی بنا پر) لیتے ہیں۔ گویا لفظ لسانی ترسیل ہی کا نہیں بلکہ سننے والے اور بولنے والے کے لاشعور و تحت الشعور کا بھی آئینہ ہوتا ہے۔
غالبؔ کا لاشعور ’’انا‘‘ کا امیر تھا۔ لیکن حالات ان کے مثالی شخص کے عدو تھے۔ اسی لیے ہم غالبؔ کی شوخیوں کی بناء پر زندیق نہیں قرار دے سکتے۔ اصل میں یہ آزاد روی تسکینِ انا کا ایک اکیلا راستہ رہ گئی تھی۔
غالبؔ کے طرزِ بیان میں ایک خاص چابک دستی ملتی ہے۔ وہ الفاظ کی ماہیت کو بدل دینے پر قادر اور معنی کو نیا زاویہ بخش دینے کے ماہر تھے۔ جب ذوقؔ نے غالبؔ کے سہرے کا مقابلہ کیا تو غالبؔ نے اس کے اندر چھپے ہوئے مسائل پڑھ لیے وہ شاعر تھے اور زندگی کی ٹوٹی ہوئی کشتی کے لیے بادبان کی ضرورت تھی، شاعری نان و نمک نہ تھی۔ ان کا سہرا جو چیلنج تھا ان کی انا کا سیدھا سادہ اور سچا اظہار تھا لیکن معذرت نامہ ایک مجبور کی زبان تھی۔ غالبؔ اس میں بھی زندہ تھا۔ جب وہ کہتا ہے کہ
استادِ شہہ سے ہو مجھے پرخاش کا خیال
یہ تاب یہ مجال یہ طاقت نہیں مجھے!
تو اس شعر میں ’’استادِ شہ‘‘ کی ترکیب دیکھیے۔ غالبؔ صاف کہہ دیتے ہیں کہ شاعری تو اس کا فن ہے لیکن استادِ شہ سے مقابلہ اس کے بس کا کام نہیں۔ اسی لیے تو ’’شاعری تو ذریعۂ عزت نہیں مجھے‘‘ اور جب وہ ’’یہ تاب، یہ مجال، یہ طاقت نہیں مجھے‘‘ تو کھلی زبان میں طاقت کے خلاف شکوہ کرتے ہیں اور کہیں یہ نہیں کہتے کہ ان کے پاس صلاحیت فن اور ہنر مندی کی کمی ہے۔
غالبؔ کی خوش قسمتی تھی کہ ان کی عبقریت کے راز کھلے نہیں اور وہ اپنی اسی مشکل پسندی پر خوش تھے کہ:
بک رہا ہوں جنوں میں کیا کیا کچھ
کچھ نہ سمجھے خدا کرے کوئی
یہ ’’کیا کیا کچھ‘‘ اگر نمایاں ہو جاتے تو غالب کو سقراط ضرور بننا پڑتا۔
غالبؔ کی شاعری میں فکری خواب خیالی کا عنصر بھی نمایاں ہے۔ وہ ایسے مناظر بناتے ہیں جو ان کے ماحول کی صورتِ حال سے ہم آہنگ ہوتے ہیں۔ لیکن منظر پارے حقیقتاً اصل ہیں۔ کیوں کہ ان کا وجود نا ممکن ہے۔ ایسے نمونے آپ کو بالراست تو نہیں مگر بالواسط بہت ملیں گے!
ہو گئے ہیں جمع اجزائے نگاہ آفتاب!
ذرے اس کے گھر کی دیواروں کی روزن میں نہیں
طالعِ ناساز، ساز طالع ناساز ہے
نالہ گویا گردشِ سیارہ کی آواز ہے
سبزہ خط سے ترا کاکل سرکش نہ دبا
یہ زمرد بھی حریفِ دمِ افعی نہ ہوا
روزنِ دیوار سے دھوپ کو جھانکتے دیکھ کر اجزائے نگاہِ آفتاب کا تصور، طالع سے سیارہ اور سیارے سے نالہ اور گردشِ سیارہ سے آواز کو گرفتار کرنا، زمرد اور افعی کا عناد، یہ سب غالبؔ کی فکری خواب خیالی اور منظر کشی کے داخلی تجربوں کے مخصوص نمونے ہیں۔ تجربے کی اس کمزور سی بنیاد پر ایک بسیط ڈرامے کی تشکیل، پھر ڈرامے میں مرکزی یا بنیادی کردار کا اظہار کیے جانے والے نکتے سے ہم آہنگ ہونا، ایک فینٹسی Fantasy کو مقید کرنے کا نتیجہ ہے۔ غالبؔ نے اسی مقام پر اپنی حکیمانہ صلاحیتوں کی نشان دہی کے لیے ایک تیکھا نکتہ چھوڑا ہے۔ گرچہ موضوع یا بیان ہونے والا نکتہ وہی ’’حسن کا سورج کے لیے مقصودِ شوقِ دید ہونا، بدقسمتی کا ستارہ سے رشتہ، سبزہ خط اور زلفِ سرکش کی ثناء بہ ذاتِ خود حیرت انگیز مضامین نہیں ہیں۔
غالبؔ کے اشعار میں ایک کلیدی لفظ بھی ہوتا ہے۔ اگر ان کا شعر سہل پسندی کا عکس ہو تو اس میں یہ لفظ یا مرکب لفظ معانی کے مکان کے لیے دروازہ ہو گا۔ مثلاً:
دے کے خط منھ دیکھتا ہے نامہ بر
کچھ تو پیغام زبانی اور ہے
کوئی ویرانی سی ویرانی ہے
دشت کو دیکھ کے گھر یاد آیا
کیا وہ نمرود کی خدائی تھی
بندگی میں مرا بھلا نہ ہوا!
ہے کچھ ایسی ہی بات جو چپ ہوں
ورنہ کیا بات کر نہیں آتی
ترچھے الفاظ کسی متوسط سلیس گو شاعر کے کلام میں متوقع نہیں۔ وہ اظہار و ابلاغ کا اتنا دیوانہ ہو گا کہ اشعار سے کشش ہی خارج ہو جائے گی۔ مثلاً وہ کہے گا:
دیکھے خط منھ دیکھتا ہے نامہ بر
گویا پیغام زبانی اور ہے
۔۔ ۔۔ وغیرہ
اچھا ہوا جو غالبؔ نے اپنے کلام پر کسی نازک مزاج استاد سے تصحیح نہیں لی۔ ورنہ ان کا کلام ایک مسطح میدان ہو کر رہ جاتا۔ نکیلا پن خاک میں مل جاتا۔ الفاظ میں چھپی ہوئی تیزی و تندی کو غالبؔ نے اس طرح اپنی فکر میں جذب کر دیا کہ وہ ان کی قدرتی صلاحیت کے تحت وجدانی طور پر ان کے کلام میں در آئے۔ یہ الفاظ بہتے ہوئے دریا میں ان پتھروں کی طرح ہیں نہ صرف دریا میں لہر پیدا کرتے ہیں بلکہ ہلکی ہلکی پانی کی صدا بھی خارج Emit) (کرتے ہیں اور یہی دریا کے پُر آب ہونے کی دلیل ہیں۔
اور پھر مشکل اشعار میں:
ہے کہاں تمنا کا دوسرا قدم یارب
ہم نے دشتِ امکاں کو ایک نقشِ پا پایا
قاطعِ اعمار ہیں اکثر نجوم
وہ بلائے آسمانی اور ہے
ہوئی ہے مانع ذوقِ تماشا خانہ ویرانی
نگینِ خام شاہد ہے مرا ہر قطرہ خوں تن میں
بھلا اسے نہ سہی، کچھ مجھی کو رحم آتا
اثر مرے نفسِ بے اثر میں خاک نہیں
یوں تو شاعری کے بنیادی عناصر میں مبالغہ بھی ایک ہے، سوداؔ، ذوقؔ اور دوسرے قصیدہ نگار شعرا نے مبالغے کی ناپید حدود کو بھی چھو لیا تھا۔ لیکن غالبؔ کا مبالغہ ان کے اندازِ بیاں کی لطافت اور ان کی فکری حکمت کا تفاعل ہے۔ اس تفاعل کے رنگ و روغن میں بھی نیم شخصی فریب ہے (جو نکتہ بیاں ہو رہا ہو وہ بنیادی مفروضے کو مضبوط بھی کرے اور منعکس بھی کرے) مثلاً:
عرض کیجیے جو ہر اندیشہ کی گرمی کہاں؟
کچھ خیال آیا تھا وحشت کا کہ صحرا جل گیا
لاغر اتنا ہوں کہ گر تو بزم میں جا دے مجھے
میرا ذمہ دیکھ کر گر کوئی بتلا دے مجھے
میں نے چاہا تھا کہ اندوہِ وفا سے چھوٹوں
وہ ستم گر مرے مرنے پہ بھی راضی نہ ہوا
ذکر میرا بہ بدی بھی اسے منظور نہیں
غیر کی بات بگڑ جائے تو کچھ دور نہیں
غالبؔ اپنے ماحول کا عکاس تھا۔ اس کا پیش کیا ہوا منظر ایک نادر انداز سے منشرح ہوتا تھا۔
٭٭٭
[غالبؔ پر لکھا ہوا یہ مضمون ہفت روزہ ’’ہماری زبان‘‘ میں شائع ہوا تھا۔ اس کا کچھ حصہ میری دست رس سے پرے ہے۔ اس لیے جو نامکمل حصہ اوراقِ پریشاں میں محفوظ رہ گیا تھا۔ بڑی معذرت کے ساتھ، وہ قارئین کی نذر کیا جا رہا ہے۔]
٭٭٭