کتاب مشاہدے
چائے کی پیالی جب پرچ سے ٹکرائی تو ایک معصوم سا نغمہ فضا میں بکھر گیا اور سگریٹ کا دھواں اس نغمے کی دھن میں تھرکنے لگا۔ ان کے پاس بیٹھنے سے اکثر کچھ ایسا ہی محسوس ہوتا ہے، ہلکی سی وجدانی کیفیت جو ان کی باتوں کے ساتھ اس سرحد تک پہنچتی ہے جس کے ایک طرف ہم سوتے ہیں اور ایک طرف ہم جاگتے ہیں۔ سونے اور جاگنے کے درمیانی عالم میں میرا پہلا سوال تھا۔
’’بچوں کے گیت آپ نے کیوں لکھے؟‘‘
’’جی چاہا، اس لئے لکھے۔ نہ صرف بچوں کے گیت بلکہ تمام تخلیقی کاموں کے سلسلے میں میرا یہی رویہ ہے۔ میں اسی وقت لکھتا ہوں جب میرے اندر لکھنے کی خواہش بیدار ہوتی ہے۔‘‘
میں نے فوراً ہی انہیں کارنر کرنے کے لئے کہا۔
’’آپ ریڈیو کے ملازم ہیں، وہاں تو ضرورت کے مطابق لکھنا ہوتا ہو گا۔‘‘
’’ضرورت کے مطابق بھی لکھنا ہوتا ہے مگر میں تخلیقی چیزوں کی بات کر رہا تھا۔ مثلاً ڈرامہ اور گیت۔ اس کے لئے ریڈیو مجھے اتنا وقت دیتا ہے کہ تخلیقی لمحوں کا انتظار کر سکوں۔‘‘
میں نے پھر اپنے موضوع کی طرف آتے ہوئے سوال کیا۔
’’بچوں کے لئے آپ نے پچھلے دو ایک سال میں کچھ زیادہ ہی لکھا ہے۔ اس کا سبب؟‘‘
فروغ صاحب نیا سگریٹ جلاتے ہوئے گویا ہوئے۔
’’دیکھئے۔ کسی کیفیت کا آپ کی داخلیت میں موجود ہونا ضروری ہے۔ اس کے بعد یہ ہے کہ کوئی خارجی مہیج بھی ہو سکتا ہے۔ بچوں کے گیت میں یوں بھی گاہے گاہے لکھتا تھا لیکن ریڈیو اور ٹیلی وژن کے پروڈیوسروں کے کہنے سے میں نے ان کی طرف زیادہ توجہ دینی شرو ع کی۔‘‘
’’کون کون سے پروڈیوسر؟‘‘
’’ریڈیو کی سیدہ ناز کاظمی اور ٹیلی وژن کے عبید اللہ علیم، فہمیدہ نسرین اور سلطانہ صدیقی۔‘‘
اس مرحلے پر میں نے ایک اور ذکر چھیڑا۔
’’غزل تو خیر آپ کا میدان ہے۔ مگر آپ نثری نظمیں بھی لکھتے ہیں۔ تو نثری نظم کی کھردری نثریت اور بچوں کے گیتوں کی نازک موسیقیت میں بعد المشرقین ہے، ان دونوں سے بیک وقت کیسے عہدہ برآ ہوتے ہیں۔‘‘
اس کا جواب تھا۔
’’یہ تو مجھے بھی نہیں معلوم۔ دراصل یہ جو عہدہ برآ ہونے کی بات ہے اس کی کوشش میں نے کبھی نہیں کی۔ میں اپنے satisfaction کے لئے لکھتا ہوں۔ آپ کے الفاظ میں کھردری نثریت اور نازک موسیقیت کا ارادہ کر کے میں نہیں لکھتا۔ کچھ خاص لمحے ہوتے ہیں۔ جب میں محسوس کرتا ہوں کہ مجھے لکھنا چاہئیے۔ سو میں لکھتا ہوں۔ اور یہ کیفیت خود ہی اپنے سانچے کا انتخاب کر لیتی ہے۔‘‘
بچوں کے لئے رئیس فروغ کے لکھے ہوئے گیتوں کی کتاب ’’ہم سورج چاند ستارے‘‘ میرے سامنے تھی۔ میں اس میں چھپی ہوئی قمر جمیل کی تحریر پڑھنے لگا۔
’’بچے ان سے پیار کرتے ہیں۔ ان کے سر پر جو سفید بالوں کا grace ہے، اس سے اس درجہ مانوس ہیں کہ اکثر اپنے بستروں میں جانے سے پہلے گاتے ہیں کہ ہمیں یہ سفیدی اپنے دیس کی کپاس سے کم عزیز نہیں۔ یہ سفیدی مری کی پہاڑیوں پر اُگنے والی برف سے کم خوبصورت نہیں ہے۔ بچو! اس خوبصورت فن کار کی روح میں جو دکھ ہیں وہ تمہاری مسکراہٹ سے صبح کا سورج بن جاتے ہیں۔ یہ صبح کا سورج تمہاری زندگی ہے۔ اور تمہارے شاعر رئیس فروغؔ کی شاعری سے کھلنے والا پھول۔‘‘
رخصت ہونے سے پہلے میرا آخری سوال تھا۔
’’اس کتاب میں آپ کو سب سے زیادہ کون سا گیت پسند ہے۔‘‘
انہوں نے جواب دیا۔
’’پوری ہی کتاب مجھے پسند ہے۔‘‘
میں نے الفاظ بدل کر ایک بار پھر یہی سوال کیا۔
’’اس وقت اگر میں آپ سے کوئی گیت پڑھنے کی درخواست کروں تو آپ کون سے گیت کو ترجیع دیں گے۔‘‘
فروغؔ صاحب نے مجھے یہ گیت سنایا، جس کا عنوان ہے۔ آج کا دن
آج کا دن
تاک دھنا دھن
آج کا دن
کل سے اچھا آج کا دن
آج کا دن جو آیا ہے
سورج کو بھی لایا ہے
چوں چوں کرتی چڑیا نے
ننھے منے پنکھ ہلائے
اوس کی ننھی بوندوں نے
کلیوں کے چہرے چمکائے
جاگے سوئے رستوں پر
اسکولوں کے بچے آئے
الجھی سلجھی گلیوں میں
ہاکر صدا لگاتا جائے
تاک دھنا دھن
آج کا دن
کل سے اچھا آج کا دن
رئیس فروغ نے ۱۹۲۶ء میں اتر پردیش کے شہر مرادآباد میں آنکھ کھولی۔ ان کے جدِ امجد حضرت شاہ لطف اللہ جو ادادا صاحب کے لقب سے مشہور ہیں۔ عرب سے چین تشریف لے گئے اور چین سے مغل تاجدار شاہ جہاں کے عہد میں بھارت آئے اور مرادآباد میں قیام کیا۔ مراد آباد کا ایک حصہ کٹگھر کے نام سے مشہور ہے۔ انہیں کا آباد کیا ہوا ہے۔ مراد آباد سے رئیس فروغ ہجرت کر کے ۱۹۵۰ء میں پاکستان آئے، کچھ دن ٹھٹھہ میں رہے پھر عروس البلاد کراچی کا رخ کیا۔ وہ کراچی یونیورسٹی کے گریجویٹ ہیں۔ الہ آباد یونیورسٹی سے اعلیٰ قابل اور پنجاب یونیورسٹی سے ادیب فاضل کی ڈگری بھی انہوں نے حاصل کی۔ ہندی کا بھی ایک آدھ امتحان پاس کیا ہے۔ کئی سال تک کراچی پورٹ ٹرسٹ کے ادبی مجلے ’’صدف‘‘ کے مدیر رہے۔ آج کل ریڈیو پاکستان سے وابستہ ہیں۔
بچوں کے لئے وہ شروع ہی سے لکھتے رہے ہیں۔ ایک زمانے میں بچوں کے لئے ان کی نظمیں ’’غنچہ‘‘ بجنور میں شائع ہوا کرتی تھیں۔ مشہور اخبار ’’مدینہ‘‘ بجنور کا ادارہ ہی یہ رسالہ بھی نکالتا تھا۔ پاکستان میں بھی گاہے گاہے ان کی نظمیں بچوں کے رسالوں میں چھپتی رہیں۔ لیکن بچوں کے گیت نگار کی حیثیت سے اصل شہرت انہیں کراچی ٹیلی وژن کے پروگرام ’’ہم سورج چاند ستارے‘‘ سے ملی۔ بچوں کے اس مقبول پروگرام کے لئے وہ لگ بھگ ایک سال تک لکھتے رہے۔ بچوں کے عالمی سال ۱۹۷۹ء میں شائع ہونے والی ان کی کتاب ’’ہم سورج چاند ستارے‘‘ میں انہیں گیتوں کا انتخاب شائع کیا گیا ہے۔
اردو ادب میں بچوں کی شاعری کے سلسلے میں بھی اہم ترین نام شاعر مشرق کا ہے۔ انہوں نے بچوں کے لئے جو نظمیں لکھیں ان میں سے ہر نظم اپنے موضوع اور اندازِ بیان کے اعتبار سے ایک شاہکار ہے۔ انہیں بجا طور پر ایک مفکر شاعر یا شاعر مفکر کی تخلیقات کہا جا سکتا ہے۔
ہماری کئی نسلیں اپنی طالب علمی کے ابتدائی دور میں جس شاعر کو سب سے زیادہ پڑھتی رہی ہیں۔ وہ اسمعٰیل میرٹھی ہیں۔ جنھوں نے بچوں کی ذہنی صلاحیت اور ان کی دلچسپی کو پیش نظر رکھتے ہوئے سبق آمیز اور سبق آموز نظمیں لکھ کر ایک بڑی کمی کو پورا کیا۔ ان کی خوبصورت نظمیں اپنی دلکشی اور افادیت کے باعث آج کے دور میں بھی خاص اہمیت رکھتی ہیں۔ اسمٰعیل میرٹھی یوں بھی ایک ذہین شاعر تھے۔ وہ اپنے عہد کے جدید رجحانات کو بھی قبول کرتے تھے۔ وہ اردو میں نظمِ معریٰ کے بانیوں میں سے ایک تھے۔ لیکن جس طرح اکبر الہ آبادی اپنی غزلوں کے دیوان سے نہیں بلکہ طنزیہ اور مزاحیہ شاعری سے پہچانے جاتے ہیں۔ اسی طرح اسمٰعیل میرٹھی کی پہچان وہ نظمیں بن گئیں جو انہوں نے بچوں کے لئے لکھیں۔
قیام پاکستان کے بعد بچوں کے لئے شاعری نہ ہونے کے برابر ہوئی۔ گنتی کی چند اچھی نظمیں، ٹوٹ بٹوٹ، بلو کا بستہ، ثریا کی گڑیا اور بس۔ اس کے آگے شیکسپئر کے بقول خاموشی ہے۔ اس کا سبب کیا ہے۔ سبب ہے ہمارے محکمۂ تعلیم کی بے پروائی، تالیف کا کام بابو لوگوں کے ہاتھوں میں رہا۔ جو کاغذ کا پیٹ بھرنے میں ماہر ہوتے ہیں۔ جن کے نزدیک فائل کا پیٹ بھرنے اور کتاب کا پیٹ بھرنے میں کوئی فرق نہیں۔ وہ غلطیوں سے بھری ہوئی کتابیں بچوں کو پڑھواتے رہے اور بار بار کورس تبدیل کر کے کارگزاری دکھاتے رہے۔ وہ نہیں جانتے کہ تُک بندی اور شاعری دو مختلف چیزیں ہیں۔ انہوں نے تیس بتیس سال تک ہمارے بچوں کو شاعری کے نام پر شاعری کا التباس پڑھایا اور انہیں تخلیقی شاعری سے محروم رکھا۔ ان کی ذہنی نشوونما میں اس اہم عنصر کی کمی رہی۔ یہ کتنا بڑا ظلم ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس عرصہ میں پروان چڑھنے والی نسلیں ادب و شعر کی اس طرح مزاج داں نہ ہو سکیں۔ جیسا کہ انہیں ہونا چاہئیے تھا۔ شاعر اور قاری کے درمیان جو خلیج پائی جاتی ہے اس کا بڑا سبب ہمارے ہاں یہی ہے۔
’’ہم سورج چاند ستارے‘‘ کے گیت پڑھنے سے اولین تاثر یہ ملتا ہے کہ یہ گیت تخلیقی جوہر سے بھرپور ہیں۔ ہر گیت میں شروع سے آخر تک تخلیقی رواپتی موجودگی کا احساس دلاتی ہے۔ اس کتاب کو پڑھتے ہوئے ہم اپنے آپ کو شاعری کے ڈومین میں محسوس کرتے ہیں۔
کل رات کہانی پریوں کی باجی نے سنائی چپکے سے
پھر دھیرے دھیرے ہوا چلی اور نندیا آئی چپکے سے
میرے خیال میں شاعری کی پہلی شرط یہ ہے کہ وہ شاعری ہو۔ یہ بات ہر شاعری کے لئے درست ہے۔ خواہ وہ بڑوں کے لئے لکھی گئی ہو خواہ بچوں کے لئے۔ یہاں یہ بات بھی قابلِ ذکر ہے کہ وہ شاعری جسے ہم بڑوں کی شاعری کہتے ہیں، بے شک بچے اپنی کم عمری کے باعث اس سے لطف اندوز ہونے کی اہلیت نہیں رکھتے، لیکن بچوں کے لئے لکھی ہوئی شاعری اگر وہ واقعی شاعری ہے تو اس سے بڑے بھی اکتساب کیف کر سکتے ہیں۔ آپ عمر کے کسی حصے میں ہوں آپ کا بچپن آپ کے ساتھ رہتا ہے۔
رئیس فروغؔ کے یہ گیت لیریکل شاعری کی عمدہ مثال ہیں۔ نغمگی ان میں کوٹ کوٹ کر بھری ہے۔ بحریں مترنم ہیں، الفاظ آپس میں پیوست ہیں۔ طرز بیان سیدھا سادہ اور رواں دواں ہے۔
جب لہر کے آگے لہر چلے اور لہر کے پیچھے لہر چلے
ساحل کی ہوا میں لہراتا پانی کا بڑا سا شہر چلے
چھائے ہیں آسماں پر کتنے ہزار بادل
لائی ہوا کہاں سے اتنے ہزار بادل
کچھ لوگ کہتے ہیں اور بڑی حد تک درست کہتے ہیں کہ امیج ہی شاعری ہے۔ ’’ہم سورج چاند ستارے‘‘ میں امیجز کی فراوانی ہے۔ جو بڑوں کے علاوہ بچوں کے لئے بھی شدید دلچسپی رکھتے ہیں۔
خوشبو بنیں ہوائیں بادل بنے بچھونے
اک شہر میں کتابیں اک شہر میں کھلونے
پھر ایک بات یہ کہ ویسے تو راہ مضمون تازہ بند نہیں تا قیامت کھلا ہے بابِ سخن۔ مگر اس مجموعے میں بچوں کی دلچسپی کے بے شمار موضوعات کا احاطہ کیا گیا ہے۔
بچوں کی اکثر نظمیں آپ نے دیکھی ہوں گی جو نصیحتوں سے پٹی پڑی ہیں۔ واضح اور کھلی کھلی نصیحتیں ایسا کرو ویسا نہ کرو، یہ بات اچھی ہے، وہ بات بری ہے۔ ایسی نظمیں لکھنے والے یہ بات بھول جاتے ہیں کہ بچہ بھی اپنی ایک شخصیت رکھتا ہے۔ ایک مکمل شخصیت۔ اور یہ جو آپ کی ہر وقت کی نصیحتیں ہوتی ہیں، یہ اس پر کچھ اچھا اثر نہیں ڈالتیں۔ یہ خامی اس مجموعہ کی کچھ نظموں میں بھی پائی جاتی ہے۔ مگر زیادہ تر نظموں میں نصیحتیں اس طرح کی گئی ہیں کہ وہ نصیحتیں معلوم نہیں ہوتیں۔ ’’ہم نے اسکول چلایا‘‘، ’’آج کا دن‘‘ اور ’’کون آیا ہے‘‘ اس کی اچھی مثالیں ہیں۔ کہیں کہیں ایک اشارہ وہ بھی برائے نام مگر ساتھ ہی لاشعور کا حصہ بن جانے والا۔
محب عارفی نے اس کتاب پر رائے دیتے ہوئے لکھا ہے۔
’’ہم جب اس مجموعے کی کسی نظم کو پڑھتے ہوئے آخری مصرعہ تک پہنچتے ہیں۔ تو جی چاہتا ہے کہ اس نظم کو ایک بار پھر شروع سے پڑھیں۔ یہ ایک سچا خراج تحسین ہے۔ ان کی اچھی نظموں کے لئے۔
احمد ہمدانی نے لکھا ہے۔
’’ان نظموں میں ایک بچہ رئیس فروغؔ کی انگلی پکڑے چل رہا ہے یا شاید ادھیڑ عمر کے رئیس فروغ بچے کی انگلی پکڑے چل رہے ہیں۔‘‘
عبید اللہ علیم نے اپنے خاص انداز میں لکھا ہے۔
’’میں نے ان سے کہا بچوں کے لئے بھی لکھئے، اور بچوں تم گواہی دو گے کہ یہ میں نے ٹھیک ہی کہا تھا۔‘‘
٭٭٭