(تل زعتر: 1976 کے بیروت میں فلسطینیوں کا ایک کیمپ)
میں بادلوں کا وہ ٹکڑا ہوں
جسے پتھر سے باندھ کر
ڈوبنے کے لیے چھوڑ دیا گیا ہے
میرا کوئی خاندانی قبرستان نہیں ہے
کرائے کے فوجیوں کا گھرانہ
وطن سے دور مرنے کی رسم
آٹے کی چکی کی بستیوں میں
مجھے آدمیوں سے خوف آتا ہو گا
میں اس گھاٹ پر نہاتا ہوں
جہاں جانور نہاتے ہیں
ماں میرے سر میں ناریل کا تیل چپڑ دیتی ہو گی
میں گھگھیانا شروع کر دیتا ہوں
میں نے کبھی کوئی لوری نہیں سنی
میں کبھی نہیں سویا ہوں گا
میں شاعروں کی طرح تتلیوں کے پیچھے بھاگتا
مگر ضدی گندے بہن بھائیوں کو بہلانے کے لیے روک دیا جاتا رہا ہوں گا
ہمارے گھر کوئی مہمان نہیں آتا تھا
کوئی تہوار نہیں آتا تھا
ہم مُردوں کا تہوار تک نہیں مناتے تھے
میرا پسندیدہ کھلونا
چوہے دان رہا ہو گا
میری دوپہریں وباؤں کی بستیوں میں آہ و بکا سننے میں گزری ہوں گی
شام کو جب منحوس پرندے شور مچانے لگتے
میں گھر آ جاتا
اور اپنے پاؤں سے زمین کریدنے لگتا
کوئی خزانہ ہمارے گھر کے نیچے دفن ہے
مگر میرا باپ مجھے لہولہان کر دیتا ہے
مجھے اپنے باپ سے محبت رہی ہو گی
جبھی اس کی قبر پر اتنی سبز گھاس اُگی
میرا بچپن ننگی بارشوں میں گزرا ہو گا
دلدلوں پہ شارعِ عام لکھا ہے
میں وہ بارہ سنگھا ہوں
جس کی سینگیں رات کے جنگل میں الجھ جاتی رہی ہوں گی
میں لکڑہارا بن جاتا
مگر ہر درخت پر محبت کرنے والوں کے نام کھدے رہے ہوں گے
میں سورج مکھی کے پھول اگاتا
مگر سورج کو پوجنا بند کر دیا گیا ہو گا
جب شہزادیاں
خواجہ سراؤں کے ساتھ بھاگ رہی تھیں
میں تمھیں کسی پیڑ کے نیچے کھڑا کر کے
کچی جامنیں نہیں جھڑجھڑا سکا
جب کنیزیں
پنجڑے میں بند پرندوں کو نرم اور سبز پتیاں کھلا رہی تھیں
میں تمھیں وہ گھونگھا نہیں بنا سکا
جس کو کان پر لگانے سے
میرا سمندر ٹھاٹھیں مارتا ہوا سنائی دیتا رہا ہو گا
میں تمھاری الگنی پر نہیں سوکھا
تمھارے گھڑے سے نہیں چھلکا
میں تمھیں گدی سے تلووں تک اپنے نام سے نہیں داغ سکا
سیلاب آنے سے پہلے
تمھاری بستی چھوڑتے وقت
میں نے اپنی انگلی کاٹ کر چہیتوں کے دن کی نشانی لوٹا دی
مگر جب بہار کی آنچ سے مٹی تمتمانے لگی
تم اپنی جلی ہوئی روٹی
اور آدھ چمچے شوربے میں مجھے شریک نہیں کر سکیں
ساری کپاس
شہزادوں کے کفن بنانے میں صرف ہو گئی
سارا ریشم
شہزادیوں کی جرابوں پر
فاتح اور مفتوح فوجی
بھیڑوں کو اون سمیت کھا گئے
گلی میں یتیم کتے
اپنی کھالوں کو دوہرا کیے اوڑھے ہوں گے
اکڑی ہوئی اینٹوں پر سوئے ہوئے بچوں کو
دودھ میں مردہ شکر ڈال کر پلائی جا رہی ہے
روشنی آنتوں میں سوئیوں کی طرح چبھ رہی ہو گی
گزشتہ سال کے تمام دنوں کو ایک ہی قبر میں سلاتے ہوئے
غلطی سے نئے سال کا پہلا دن بھی
دفن کر دیا گیا
اب مرنے کا چھوت تمام دنوں کو لگ رہا ہے
جب باہر بھیڑیے گھوم رہے تھے
ماں سے میں نے کہا
جنگل سے لکڑیاں کاٹ لاؤ
جب باہر لٹیرے گھوم رہے تھے
بہن سے میں نے کہا
کنویں سے پانی بھر لاؤ
جب بادل کو آسمان پر
اور پنیریوں کو کھیتوں پر پھیلانے کا وقت تھا
میں اپنی تنہائی کو ہتھوڑے سے کوٹ رہا ہوں گا
جب بادل کو کھیتوں پر
اور پرندوں کو خوشوں پر آنے سے روکنے کا موسم رہا ہو گا
میں اپنی تنہائی کو
چاک پر چڑھا کر ایک خوبصورت پیالہ بنا رہا ہوں گا
میرے دوستوں نے
اپنے ہاتھ دیواروں میں بو دیے ہوں گے
اور ساحل پر پڑی ہوئی کشتیوں کے پیندے میں اپنے سر
وہ سورج کو ڈوبتا دیکھ کر
سڑی ہوئی مچھلی کی طرح پگھل جاتے رہے ہوں گے
انھوں نے کبھی زمین کا چقماق جلا کر
شعلے نہیں کاشت کیے
اپنے مویشیوں اور بال بچوں کے ساتھ
ایک ناند میں کھانا کھانے کے بعد
وہ اپنی بیویوں کے ساتھ سو جانے کے لیے اپنے بچوں کے آنکھیں موند لینے کا
انتظار نہیں کرتے ہوں گے
برسوں جرابوں کی طرح پہنی ہوئی ان کی بیویوں کے منھ سے
چراندھ آ رہی ہو گی
ان کے بچے
خون کی زندہ جلتی ہوئی بوند رہے ہوں گے
چاند آسمان پر شہد کا چھتا ہے
میں اسے ریچھ بادلوں کے حملے سے بچانے جا رہا ہوں
میرے نیزے روشنی سے تیز چلتے ہیں
بادل میری کشتیوں کے بادبان ہیں
میری توپیں سورج داغتی ہیں
سمندر سرکشی پر آمادہ ہے
میں اسے ہواؤں کے گھوڑوں سے جوتنے والا ہوں
روشنی جو اس شہر کے کھمبوں پر سرنگوں ہے
میں اسے کوڑے مار مار کر اوپر بھیجوں گا
میں انھیں گرد اور غبار کے دریا میں اپنے اعضا ڈھونڈنے پر مجبور کر دوں گا
جن کی پلکیں ہوا چلنے سے جھڑ جاتی ہیں
جن کی آنکھیں روشنی میں تڑخ جاتی ہیں
جن کی گائیں سیاہ دودھ دیتی ہیں
میں اپنے زخموں میں گندھک سے
فتح کا اعلان لکھوں گا
اور
تمھاری آنکھیں بہت خوبصورت ہیں
انھیں اپنی تلوار کے دستے پر لگاؤں گا
٭٭٭