(Last Updated On: )
کچھ بھی نہیں اب زیست کا مطلب
کتوں کی خاطر جیتا ہوں!
سلیمان اریب
وہ کیسی بھول تھی
جو گھر کا دروازہ کھلا ہی
رہ گیا ہے
اور اس میں سے در آیا سیہ کتا
بہت آواز دی، چیخا کیے
لیکن وہ گھر میں آ رہا…
مسکراتا، بے حسی سے بات کرتا
رائے دیتا اور عنایت بانٹتا
وفا کے جال ڈالے
اور ہم سب اس کے عادی ہو گئے
بچوں سے وہ مانوس تر
اور اہلِ خانہ کو پسندیدہ
کبھی ہم اپنے گھر جب
لوٹتے ہیں …!
گھر کے رہنے والے سہمے سے نظر آتے ہیں
ان کو خوف ہے اس بھیانک
شے کو گھر سے دور کر دوں گا…
مرا گھر… اس کا گھر ہے
اور
میں ممنون ہوں اس کا
کہ سگ کے ہم نواؤں میں اکیلا آدمی میں ہی بچا ہوں …!
٭٭٭