شوزیب کاشر کے شعری اسلوب میں مصنوعی تکلف نہیں بلکہ مردانہ وجاہت ہے وہ تکرار الفاظ سے جادو کی کیفیات پیدا کرتا چلا جاتا ہے ، وہ قاری کو اپنے گریبان میں جھانکنے پر مجبور کر دیتا ہے ، ہر چند کہیں کہیں اس اسلوب پر افتخار مغل کے ہونے کا شائبہ ہوتا ہے لیکن شوزیب کی انفرادیت یہ ہے کہ اس نے اس کو اپنے مخصوص رنگ ڈھنگ سے مزید خوبصورت بنا دیا ہے ، اس نے اس اسلوب کو اپنے قوت اظہار سے یوں صقیل کیا کہ اب اس کا ہر لفظ لو دیتا محسوس ہوتا ہے اور پڑھنے والا اس روشنی میں اس کے ساتھ دور تک کھینچا چلا جاتا ہے ۔ شوزیب کے ہاں مطالعے کا وفور ، مشاہدے کی فراوانی اور گہرائی میں جھانکنے کا انداز نمایاں ہے ، اس کا اسلوب ذہن کو بوجھل نہیں ہونے دیتا ، اس کی شاعری اپنے پڑھنے والوں کو صرف مرغوب ہی نہیں کرتی بلکہ اسے اپنا ہم خیال بنا دیتی ہے یہ بہت عجیب صلاحیت ہے ، شوزیب کا نام ذہن میں آتے ہی کہیں دور سے کانوں میں ایک مانوس اور سریلی آواز کی جلترنگ سنائی دینے لگتی ہے سننے والا اس جلترنگ کے ساتھ خود بھی گنگنانے لگ جاتا ہے ،،،
احساس کی دیوار گرا دی ہے چلا جا
جانے کے لئے یار جگہ دی ہے چلا جا
اے موم بدن تیرا گذارا نہیں ممکن
یہ آگ میں جلتی ہوئی وادی ہے چلا جا
شوزیب کاشر نے مجموعی طور پر روایتی کلاسیکی لفظیات کو اپنی شاعری کی زینت بنایا ہے ، اساتذۃ سخن سے بھی کسب فیض حاصل کیا اور اپنے رومانوی ، جمالیاتی ، محب وطنی اور مذہبی فلسفے کے اظہار کے لیے جو الفاظ استعمال کیے ہیں ان میں معنویت کے در کھولنے کی کوشش کی ہے اور اس میں وہ پوری طرح کامیاب ہوا ہے ، شوزیب کی شعری حسن و خوبی اور اس کے اسلوب کی پہچان بننے والے رومانوی ، جمالیاتی انداز فکر اور اس کی مذہبی فکر کی تفہیم کے لیے لفظوں کا استعمال کسی تغیر و تبدل کے ساتھ اس کے خوبصورت لب و لہجے کا غماز ہے ،
غزل کی فصل اگاتے ہیں حق اسامی پر
کہ سرقہ والے نہیں تیرے خوشہ چیں، مرے دوست
یہاں پہ چلتے نہیں تیرے جیسے موم بدن
ہمارے دل کا ہے ماحول آتشیں، مرے دوست
ایک اچھا شاعر من کے گیت ہی نہیں سنتا بلکہ وہ تن کے زخموں کی داستان بھی بیان کرتا ہے، وہ اپنے باطن کے نہاں خانوں سے امن، شانتی، پیار، خلوص اور محبت کے سچے موتی بھی رولتا ہے بلکہ ظاہر کی دنیا کے زخم، دکھ، پریشانیاں، درد، ظلم، محکومی اور استحصال کی تصویر کشی کرنا بھی اپنا فرض سمجھتا ہے، شوزیب کے لیے بھی یہ ممکن نہیں ہے کہ وہ دل کی دنیا میں اس قدر کھو جائے کہ گرد و پیش کی خبر ہی نہ رہے،
روٹی کے دو نوالے ہیں مشکل سے دستیاب
مہنگائی اس قدر ہے کہ مر جائے آدمی
####
چلتی ہیں روز گولیاں دیکھ لہو کی ہولیاں
کنگ ہیں اہلِ اقتدار ، صبح بخیر شب بخیر
####
حسن کے لعل و جواہر پہ نہیں حق میرا
میں کہ صحرا ہوں سمندر پہ نہیں حق میرا
شوزیب کاشر نے اپنے منفرد اسلوب کو وسیع مطالعہ ، مشاہدۃ کائنات ، زندگی کی حقیقی معنویت سے مہمیز ، تصورات خلوصِ اور درد مندی سے معطر ، جذبات اور متنوع تخلیقی آور ذہنی تجربات کی اساس پر استوار کیا ہے ، زبان و بیان اور ہیت کے نادر تجربات نے اس کی غزل کو زندگی کی حقیقی معنویت کا ترجمان بنا دیا ہے ۔ اس کی غزل رنج اور راحت ، دکھ اور سکھ ، شادی و غم اور جذباتی نشیب و فراز کا باہمی تعلق اساسی کے بجائے حقیقی حثیت کی حامل ہے ، ایک حقیقی تخلیق کار کی حیثیت سے شوزیب کاشر نے قارئین ادب پر واضح کر دیا ہے کہ جہاں شادمانی ہماری زندگی کے معمولات کو کسی سمت لے جانے کا اہم ذریعہ ہے وہاں ہجوم یاس میں انسان کا سینہ و دل حسرتوں سے چھا جاتا ہے اور یہ کیفیت کی تفہیم پر اصرار کرتی ہے ۔ اس نے غزل کے جملہ اسرار و رموز کو پیش نظر رکھا ہے ، غزل کا ہر شعر ایک مستعمل حثیت اور واضح مفہوم رکھتا ہے ۔ اس نے غزل کی روایت کو جس خوش اسلوبی سے اپنے فکر و فن کی اساس بنایا ہے وہ اس کی انفرادیت کی دلیل ہے مگر اس سب کے باوجود اس نے اپنے فن میں شاعرانہ تعلی سے اجتناب برتا ہے ،
نووارد اقلیم سخن بندۃ نا چیز
اک عام سا شاعر ہوں میں غالب نہیں صاحب
####
ہم ایسے پیڑ بس اتنی سی بات پر خوش تھے
کہ بیل ہم سے لپٹتی ہے اور بیل سے ہم
####
اسے نکالتے ہوئے یہ دھیان ہی نہیں رہا
نکل گیا تھا میں بھی اس کے ساتھ اپنے آپ سے
شوزیب نے اپنے من اور فن میں ڈوب کر زندگی کے حقائق کی غمازی میں جس انہماک کا ثبوت دیا ہے وہ اپنی مثال آپ ہے، اسے اچھی طرح معلوم ہے کہ زندگی کے کن موضوعات پر قلم کی جولانیاں دکھانی ہوتی ہیں، وہ ادب کا نباض ہے اس لیے اس کی ہر تخلیق عصری آگہی کو پروان چڑھانے میں اہم کردار ادا کرتی ہے، غزل کی فنی اور جمالیاتی قدر و قیمت کے بارا میں وہ ایک واضح انداز فکر اپناتا ہے اور اظہار و ابلاغ میں ہمالہ کو چھوتا ہوا محسوس ہوتا ہے، بادی النظر میں یہ حقیقت چونکا دیتی ہے کہ جس راہ میں دوسرے لوگوں کی سانس اکھڑ جاتی ہے وہاں شوزیب کاشر پورے اعتماد کے ساتھ خراماں خراماں چلتا ہوا منزل پہ پہنچ کر دم لیتا ہے،
اس فن کو غلط جاننے والوں کو خبر کیا
یہ شاعری ایسے ہے کہ جیسے کوئی منزل
عہد حاضر کی ترجیحات ہوں یا مجبوروں اور محروموں کے مسائل یا الم نصیبوں کے گھائل ہونے کا گمان، معرفت الٰہی کا بیان ہو یا حسن ر رومان کی داستان، چندے آفتاب، چندے ماہتاب حسینوں کی سراپا نگاری ہو یا ہوا و ہوس میں حد سے گزر جانے والوں کی بپتا ، علم و فضل کا احوال ہو یا معاشی آور معاشرتی جنجال، کار جہاں کے ہیچ ہونے کا تذکرہ ہو یا ہجر و فراق کی راہوں کے پر پیچ ہونے کا شکوہ، ہجر کی اذیت ہو یا وصل کی راحت غرض زندگی کا کوئی بھی پہلو اس کے دل بینا سے پوشیدہ نہیں رہتا، تخلیق فن کے لمحات میں اس نے جس جگر کاوی کا ثبوت دیا ہے وہ اس کی جدت اظہار، ندرت خیال، تخیل، اسلوبیاتی ضاعی اور زور بیان سے ظاہر ہے، پرورش لوح و قلم کو شوزیب کاشر نے ایک توازن اور ذوقِ سلیم کا آئینہ دار بنا دیا ہے، اپنی شاعری میں بالعموم اور غزل میں بلخصوص وہ مقام شوق کی اس منزل پر فائز ہے کہ پڑھنے والے اس کی کامرانیوں پر عش عش کر اٹھتے ہیں، اپنی غزل کے ذریعے اس نے مقصدیت کی جو شمع فروزاں کی ہے اسے اس کی زندگی کا بیش بہا اثاثہ قرار دیا جا سکتا ہے، وہ پوری دیانت کے ساتھ زندگی کی تعمیری اور اصلاحی اقدار کو اپنے فکر و فن کی اساس بنا کر تخلیقی فعالیت میں مصروف ہے، آئیے اس زیرک تخلیق کار کی گل افشانی گفتار سے مزین اس دھنک رنگ منظر نامے کی ایک جھلک دیکھیں جو اس کا شعری اثاثہ ہے،
چار سو اس کا ہے شہود مگر
حسب توفیق ہے نظارہ جی
####
ماں باپ کا منظور نظر ہوتے ہوئے بھی
محروم وراثت ہوں پسر ہوتے ہوئے بھی
####
بچھڑ گئے تھے کسی روز کھیل کھیل میں ہم
کہ ایک ساتھ نہیں چڑھ سکے تھے ریل میں ہم
####
بس بہت ہو گئے گلے شکوے
ختم شد داستاں،طلاق طلاق
####
آیک ہی فارہئہ سے پیار کروں
میں کوئی جون ایلیا ہوں کیا
####
مجھ کو ہے اکتساب فیض بارگہ حسین سے
اپنے اصول توڑنا میری سرشت میں نہیں۔
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...