(Last Updated On: )
بڑے سجے ہوئے سنورے ہوئے جمال کے ساتھ
وہ کھُل کے سامنے آیا تو ہر محال کے ساتھ
کبھی جو بات پراگندگی دہر کی ہو
تو میرا ذکر بھی کرنا کسی مثال کے ساتھ
ہر ایک راہ پہ کچھ جانے بوجھے سنگ ملے
ہر ایک راہ پہ چلتا ہوں احتمال کے ساتھ
نئی سیاہ لباسی، نئی عزا داری
نیا ہے یومِ شہادت ہر ایک سال کے ساتھ
یہ اپنا شہر ہے، یہ اپنے لوگ ہیں اسلمؔ
ہر ایک شکل کو رشتہ مرے زوال کے ساتھ ٭٭٭