(Last Updated On: )
اندھیروں سے ہم تنگ آئے بہت
کہ ہیں ان میں پوشیدہ سائے بہت
ہواؤں میں ویسے بھی موسم نہ تھا
درختوں نے پتے ہلائے بہت
تری زلف میں سانپ پوشیدہ ہیں
ہمیں واہمے سرسرائے بہت
جوابات کے مورچہ پر تھا وہ
سوالات ہم نے اُٹھائے بہت
سُنا ہے کسی اجنبی شہر میں
شریفوں نے بھی گل کھلائے بہت
جو اسلمؔ ہمارے مقابل رہے
وہ دشمن ہمیں یاد آئے بہت
٭٭٭