(Last Updated On: )
گل مہر کی طرح ہنس مکھ، جاگتا، کھِلتا ہوا!
یاد ہے وہ ایک چہرہ۔ دھوپ سا چھایا ہوا
یک بیک آنا، چمکنا۔ اور پھر بے ساختہ
کھلکھلا اٹھنا کہ دریا جیسے لہراتا ہوا
آنکھ رب کی دین ہے، سجدہ اسے سو سو طرح
تجھ کو جب دیکھا تو اس کا اور اندازہ ہوا
ایک حدّت دم بہ دم، سانسوں میں لہراتی ہوئی
ایک شیشہ اور وہ بھی بار ہا چٹخا ہوا
٭٭٭