(Last Updated On: )
کتاب شاید کھُلی ہوئی ہے
ورق ورق پھڑپھڑا رہے ہیں کہ آج پڑھنی
ہیں داستانیں …
ہیں آج اک ایک رمز کھلنے
علامتیں، استعارے، تشبیہیں انگلیوں سے ٹٹولنے ہیں
چراغ روشن کروں تو کیسے؟
صداقتِ عالم زمانی: سیاہ تاریک سرد کمرہ!
کتاب شاید کھلی ہوئی ہے
حروف میں فاسفورسی روشنی ہے گویا!
نگاہ چادر کو چیرتی ہے کہ۔ ذہن میں خلفشار کیوں ہے؟
مطالعے کا یہ شوق
مت پوچھ۔ مجھ کو لیل و نہار کیوں ہے؟
فراریت تیرا تجزیہ ہے …!
مجھے یہ ذوقِ فرار کیوں ہے؟
میں تجھ کو بھی اک کتاب سمجھوں
ہر ایک پہلو کو باب سمجھوں
تو مجھ کو
مسحور خواب سمجھے
خراب سمجھے
گھنا اندھیرا، نگاہ چلتی ہے ڈگمگاتی،
ہوا…
بہت دور…
پتیوں کے بدن بجاتی
اُٹھی ہوئی ساتویں دریچہ کی سبز چق ہے
کتاب شاید کھلی ہوئی ہے!!
٭٭٭