یہ شب عجب ہے
شب سیاہ سیاہ کاراں
شبِ فروغ گناہ گاراں
شبِ شبابان غم گساران
یہ شب عجب ہے کہ روح گویا ٹنگی ہوئی ہے
عجیب سی جنگ جسم و جاں میں چھڑی ہوئی ہے
ہوا میں ماتم کا شور ہے۔ رقص و رم کی دھُن پر
غریب ہونے کا سرخ محور
جمال کی زلف میں کمالِ جنوں گری کے تمام فتنے،
مگر تقدس کے صاف تقوے میں آستینی لہو کی بدبو،
دہ دانۂ سبحہ ہو کہ زیور پری کی گردن کا ہو
کہ پستک عظیم فن کار کی ہو،
…وہ سب لگے ہیں خرافات ہائے تشکیلِ اشک
جس شب…
… وہ شب عجب ہے:
یہ شب عجب ہے
کہ دور تک نور، نور عریاں مثالِ تمثالِ روزِ روشن
کہ ہر طرح شور و شر شرابہ کہ جیسے بازارِ گرمِ گیسو
یہاں وہاں گرچہ زندہ شب ہے
حیات بعد از ممات جیسے
جِنوں۔ پریتوں کا ساتھ جیسے
مِٹی ہوئی، دھول دھول ہوتی ہوئی یہ سب کائنات جیسے
یہ شب عجب ہے
جسے نفس جان جی رہے ہیں
لڑھکنے والے سیاہ پتھر پہ زلزلے کی فضا میں دم سادھ کر کھڑے ہیں
جہاں پہ ہو سامعہ پہ وارد
صدائے ہیہاتِ خوش کلاماں
جہاں پہ ہو باصرے پر وارد…
کراہتِ جبرِ گل عذاراں
یہ وقتِ حیراں
یہ وقتِ حیرانیِ عزیزاں
شبِ شبابانِ غم گساراں
٭٭٭