(Last Updated On: )
آنکھوں سے لہو چیخنے والے نہ رہیں گے
ہم بجھ گئے تو زخمی اُجالے نہ رہیں گے
بہکائیں گے پھر ہنستے ہوئے وحشی اُجالے
ہم کوئی گھڑی خود کو سنبھالے نہ رہیں گے
اے شب تری گیرائی میں چھُپ جائیں گے ہم سب
اے صبح ترے چاہنے والے نہ رہیں گے
اِک بوڑھی ہے، دیوار کے سائے میں پڑی ہے
دیوار گرے گی، تو یہ نالے نہ رہیں گے
اک بجھتی ہوئی آگ خدا بننے لگی ہے
ہم اب ترکی وحشت کے حوالے نہ رہیں گے
جاری رہے گر پیکر و احساس کی یہ جنگ !
یہ زہرہ جبیناں یہ جیالے نہ رہیں گے
آنکھوں میں اُتر جائیں گی منتظر کی سلاخیں
پھر خوابوں کے یہ دھندلے سے جالے نہ رہیں گے
جوہ اک بچہ ہے جو کاغذی گشتی پر رواں ہے
اسلمؔ تجھے امکان سنبھالے نہ رہیں گے
٭٭٭