(Last Updated On: )
کچھ اتنا محترق غم جاں سے لہو نہ ہو
آتش صفت ہی پہ یہ خاشاک خو نہ ہو
ہے سبز آئینہ میں کسی زہر کا خیال
لمحاتِ جان کی آب میں اپنا عدو نہ ہو
اے دل لہو لہو سا نہ ہو روح کا بدن
یعنی دھُواں دھُواں سا کہیں رو بہ رو نہ ہو
پھر گرد پر اُبھر نہ گیا ہو خیالِ خوف
پھر گرد چہرگی سے مری گفتگو نہ ہو
ایسے زمیں چٹخ گئی صدیوں کی جیسے پیاس
اسلمؔ یہ دکھ کے بیج کا ذوقِ نمونہ ہو
٭٭٭