(Last Updated On: )
یہ چہرے یوں ہی اگر ہے نظر گزرنے تھے
ہمیں بھی چھُپنے کی خاطر جتن نہ کرنے تھے
زمینِ خشک پہ ہونا تھا درد کو شاداب
کہ دشت ہی میں مرے قافلے ٹھہرنے تھے
خود اپنے عکس پہ آئینے میں جرات کیا؟
لہو کے قطرے اِسی سطح پر بِکھرنے تھے
انہیں ہوس کہ ہو چڑیوں کا چہچہانا عام
وہ خواب پیشہ اِسی آرزو میں مرنے تھے
فساد کاروں سے آباد دِل کی بستی ہے
پیمبر اور اِسی خطے میں اُترنے تھے
ہمیں بھی ہم نفس اسلمؔ بُرا بھلا کہتے !
حیات میں ہمیں ایسے بھی کام کرنے تھے
٭٭٭