(Last Updated On: )
اگرچہ با دلِ ناخواستہ ملیں اس سے !
اُسی کے فتنہ کا کیوں تذکرہ کریں اس سے
سوادِ کو چہ جاناں ہے جس کو شہرِ ستم
اسے جنوں ہے اگر، ہم بھی کیا کہیں اس سے
بس ایک رشتہ صد اختلاف ممکن ہے
گر اُستوار کوئی رشتہ رکھ سکیں اس سے
اک آئینہ ہے جو دیتا ہے اشتعالِ غرور
یہ جی میں آتا ہے آئینہ چھین لیں اس سے
اگر وجود پہ تھوڑی سی ہم کو قدرت ہو
دلِ ستم زدہ کا ربط توڑ دیں اس سے
وجود اس کا ہر اک شے میں پھونکتا ہے تپاک
عجب نہیں کہ ہمیں بولنے لگیں اس سے
کچھ اتنا خشک ہے اسلمؔ حیات کا موسم
نمی کی طرح تعلق ہی رکھیں اس سے
٭٭٭