(Last Updated On: )
ہَوا سے گزرے، فسادِ غبار سے بھی گئے
طلب کچھ ایسی تھی، ہم کوئے یار سے بھی گئے
تجھے سمیٹ کے باہوں میں مست رہتے تھے
نظر کچھ ایسی لگی اس خمار سے بھی گئے
خزاں کے صحن میں پھولوں کی کب کمی تھی ہمیں
یہ مانو کلفتِ بادِ بہار سے بھی گئے
امید تھی تو کسی طرح وقت ڈھلتا تھا
یہ کیا ہُوا؟ کہ ترسے انتظار سے بھی گئے؟
وہ دن ہی تھا کہ کم از کم تھا سایہ ساتھ اپنے
وہ شب ہے اب کہ ہر اک اعتبار سے بھی گئے
وہ دن ہی تھا کہ لہو ناچ کر لپکتا تھا
وہ شب ہے اب کہ کسی اختیار سے بھی گئے
خدا کے ہوتے پڑی ایسی دل پر اسے اسلمؔ
کہ ہم مجالِ تمنا ہے یار سے بھی گئے
٭٭٭