(Last Updated On: )
درد نے پچھلی رات میں ٹوکا، اور کہا کہ پکار خدا کو
ہم کیا کہتے … کھو بیٹھے ہیں اک جنگل میں برگِ نوا کو
کیوں جیتے ہیں، کیا حاصل ہے دن میں چراغ جلانے کا اب
آنا جانا، کام لگا ہے، مفت میں گویا موجِ ہوا کو
جلوے ضائع… نغمے ضائع اور ہر بہلاوے ناکام
ٹوٹتی مٹی کیا روکے گی اس اک دیوانے دریا کو
میرے دوست نہ پوچھ کہ کیا ہے آج کا دن اور کیا تاریخ
ایسے اضافی پیمانوں سے کام ہی کیا مجھ سے تنہا کو
جیسے دریا کرتے ہیں زرخیز زمینوں کو سیراب
دھوپ کی دیوی دودھ پلاتی ہے کچھ یونہی صحرا کو
راہ میں ایک قلندر جیسا مست ملنگ سا شخص ملا تھا
مجھ سے اسلمؔ پوچھ رہا تھا… کیوں تم لِپٹے ہو دنیا کو
٭٭٭