(Last Updated On: )
بچھڑے جو تجھ سے عالم جاں ہی جُدا ملا
کیا شئے ہے دل گرفتگی اس کا پتہ ملا
ہم کیسے کینوس پہ نیا رنگ اُبھارتے؟
ساری ہوا میں نِیلا سمندر بھرا ملا
لَوٹے تو گھر کے فرش پہ دروازہ کے قریب
بچپن کا ایک اپنا ہی فوٹو پڑا ملا !
چاہے سجا کے رکھے، نہ چاہے تو پھینک دے
تحفے میں ہے ہر ایک کو دستِ دعا ملا
جب آنکھ کھولی ساعتِ مغرب تھی روبرو
سورج زمانِ شوق کا بُجھتا ہوا مِلا
اچھا ہوا کہ اس سے ملاقات ہو گئی
دل کے زیاں کا ایک نیا راستہ ملا
اسلمؔ دکن ۱؎ سے دور جو آئے کرو حساب
سوندھی زمیں کو چھوڑ کے صحرا میں کیا ملا
۔۔۔۔
۱؎ حیدر آباد: کہ دوشیزہ بر افگندہ نقاب
٭٭٭