(Last Updated On: )
پکار اب نہ مجھے، میں تجھے بھُلا بھی چکا
وہ اپنا کیسے ہو… جو اجنبی کا سایہ تھا
سنبھال رکھا تھا میں نے خود اپنی سمتوں کو
سمندر آج مرے ساحلوں پہ ٹھیرا تھا
اٹھائے پھرتی تھی موجِ ہوا، جنوں کے چراغ
وہ دن کچھ اور تھے جب عاشقی کا چسکہ تھا
وہ جس نے کر دیا ہر استعارہ چکنا چُور
وہ تیری شوخ سی آواز کا کھنکنا تھا
شدید دھوپ کی لذّت خُنک ہواؤں کا لُطف
ہر ایک ذرّہ کسی آرزو میں بکھرا تھا
ملے ہیں جو نئے معبد کے گنبد و محراب
تو یاد آیا وہ بُت جو کہ برف جیسا تھا
خبیث واہموں کی شورہ پشتی سے اسلمؔ
وہ رشتہ ٹوٹ گیا جو کہ جان جیسا تھا
٭٭٭