(Last Updated On: )
اب یہاں کون ہے جو اس کی صدا سمجھے گا
دل تو وحشی ہے اسے اب کوئی کیا سمجھے گا
تو ستم گر ہے کہ واقف ہے ہر اک حربے سے
مرنے والا تو فقط تیری ادا… سمجھے گا
تجھ سے ٹکرانے کی لذت نے کیا تھا سرشار
غیر تو اس کو مِری لغزش پا سمجھے گا
سِسکیاں لے گی وہ بوڑھی وہ کٹیلی جھاڑی
تو مرے پہلو میں رہنے کو بُرا سمجھے گا
ساتھ رہنا نہیں ممکن تو ’’خدا حافظ ‘‘ ہے
ہم کو مِٹنا ہے، بھَلا تو نہیں کیا سمجھے گا
اس حسینہ کو ہمیشہ تھی زمانے کی ہَوس
اور زمانہ مرا کب تھا مجھے کیا سمجھے گا
میں نے خود پھونک لیا اپنا نشیمن اسلمؔ
وہ مرا برق صفت اس کو وفا سمجھے گا
٭٭٭